اظہر سید
چینی روسی اور پاکستانی اداروں کا تجزیہ ہے افغانستان میں تیس سے پینتیس ہزار لوگوں پر مشتمل مسلح گرو موجود ہیں۔یہ گروپ مقامی وار لارڈ،داعش،القائدہ،طالبان سمیت مختلف جھنڈوں کے نیچے آپریٹ کر رہے ہیں۔
افغان حکومت کے پاس اتنی صلاحیت موجود نہیں ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف کاروائی کر سکے۔
ایک حصہ بلوچ عسکریت پسندوں کا ہے وہ بھی بلوچستان سے منسلک افغان سرحدوں میں پناہ حاصل کرتے ہیں۔
طالبان حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی منظم افغان فوج کو ختم کر دیا تھا ۔کامیابی حاصل کرنے والی طالبان لیڈر شپ نے بچی کچھی افغان فوج کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم طالبان کمانڈروں کو سونپ دیا تھا جنکی کوئی تربیت نہیں تھی ۔ صرف چھاپہ مار کارروائیوں کے ماہر تھے ۔
بھارت اور نیٹو سے تربیت یافتہ افغان فوج کے کمانڈر بھاگ گئے تھے یا مار دئے گئے تھے ۔
اب جو افغان فوج موجود ہے اس کے پاس اتنی صلاحیت ہی موجود نہیں وہ اپنی سر زمین پر مسلح گروپوں کے خلاف کاروائی کر سکے ۔
پاکستانی فوج کے پاس یہ صلاحیت موجود ہے وہ اپنی سر زمین بلکہ افغانستان میں بھی دہشت گرد گردوں کے خلاف منظم کاروائی کر سکے ۔
چین روس اور پاکستان کی طرف سے گزشتہ ایک سال کے دوران ملڑوں پر سفارتی دباؤ ڈالا جا رہا ہے وہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے ۔
تاہم اب ایک اتفاق رائے سامنے آرہا ہے افغان حکومت دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی صلاحیت نہیں رکھتی،،کاروائی کرنا نہیں چاہتی ۔ ان دہشت گرد تنظیموں کو بلیک میلنگ کے زریعے خطہ کے ممالک سے مال پانی کے حصول کیلئے استعمال کر رہی ہے ۔
ملڑے کاروائی کریں گے تو دہشت گرد گروپ افغان حکومت کے خلاف بھی لڑنا شروع کر دیں گے ۔راستہ یہی تھا ان دہشت گردوں کو بغیر پوچھ گچھ کے رہنے کی اجازت دی جائے اور پاکستان میں دہشت گردی کی کاروائیوں سے آنکھیں بند کر لی جائیں۔
یہ کھیل اب مزید نہیں کھیلا جا سکتا ۔دو ہی صورتیں ہونگی ،پاکستان کو افغان سر
زمین پر دہشت گردوں کے خلاف کاروائیاں کرنے کی اجازت اور معاونت فراہم کی جائے یا انتظار کیا جائے خطہ کی طاقتیں کب افغان حکومت تبدیل کرنے کیلئے کام کا آغاز کریں۔
کام کا آغاز بہت جلد ہو گا ۔ ملڑے یا تو بھارت اور امریکہ سے مدد حاصل کریں گے انکی حکومت کو روسی،چینی اور پاکستانی دباؤ سے بچایا جائے یا پھر وہ انسان کے بچوں کی طرح حکومت کریں گے ۔دو کشتیوں کی سواری ممکن نہیں
واپس کریں