دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
“295 سی اور ہم“
طاہر سواتی
طاہر سواتی
مفتی طارق مسعود کسی زمانے میں گستاخوں کے سر قلم کرنے کے حق میں تھے، کیونکہ ان کے نزدیک عدالتیں ایسے مجرمان کو سزا نہیں دیتیں۔ لیکن جب یہ معاملہ خود ان پر آیا تو عقل ٹھکانے آگئی۔
اب وہ کہتے ہیں کہ امت کے علما کا اجماع ہے کہ اگر کسی کی ایک بات کے ننانوے (۹۹) مطلب کفر کی طرف نکلتے ہوں اور صرف ایک مطلب اسلام کی طرف جاتا ہو تو اسی ایک کو تسلیم کیا جائے۔ کسی پر کفر یا توہین کا الزام لگانے سے پہلے اس شخص سے پوچھا جائے کہ اس کا اصل مدعا اور مطلب کیا ہے۔
اب وہ اپنے شدید ترین مخالف، انجینئر مرزا، کے حق میں بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ دفعہ ۲۹۵ سی مولویوں کے ہاتھ میں ایک ننگی تلوار ہے جسے وہ جب چاہیں اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کر لیتے ہیں۔
مفتی صاحب کا موقف ہے کہ کسی کے کفر یا توہین والے کلمات کو صرف نقل کرنے سے وہ شخص توہین کا مرتکب نہیں ٹھہرتا۔ ورنہ انجینئر مرزا کے خلاف فتویٰ یا ایف آئی آر درج کرنے والے خود بھی اس زد میں آ سکتے ہیں۔
اب بقول مفتی صاحب، اگر امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ ننانوے کفر کے پہلو نکلنے کے باوجود ایک صحیح مطلب کو فوقیت دی جائے تو حکومت کو چاہیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی طرز پر ایک ’’فتویٰ کونسل‘‘ قائم کرے، جس میں تمام مکاتبِ فکر کے مستند علما کو نمائندگی دی جائے۔
کسی کے خلاف توہین کی شکایت سب سے پہلے اسی کونسل میں درج کی جائے۔ کونسل نہ صرف الزام کی حقیقت جانچے بلکہ ملزم کو بلا کر وضاحت کا موقع بھی فراہم کرے۔
اس کے بعد اگر کونسل کے علما کی دو تہائی اکثریت فیصلہ دے تو اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہو اور ٹرائل کورٹ میں مقدمہ چلایا جائے۔
کونسل کی منظوری کے بغیر کسی پر توہین کا مقدمہ درج کرنے یا اس کے خلاف مساجد میں فتویٰ دینے والوں کو گرفتار کر کے انہیں بھی ۲۹۵ سی کے تحت سزا دی جائے۔
میرے خیال میں اس اقدام سے ۲۹۵ کے تحت مقدمات درج ہونے کی شرح ۹۵ فیصد تک کم ہو جائے گی، اور ساتھ ہی اس قانون کی افادیت بھی برقرار رہے گی۔ ورنہ اس وقت جس طرح اس کا غلط استعمال ہو رہا ہے، وہ بذاتِ خود اس قانون کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
مسیحی پادریوں نے بھی اسی طرز پر اپنے مذہب کو تماشا بنایا۔
لیکن میرے نزدیک پاکستان کے مولوی اس قسم کی کونسل کو کبھی بننے نہیں دیں گے، کیونکہ یہ ان کے نزدیک ’’توہین‘‘ سے زیادہ روزی روٹی کا مسئلہ ہے۔
حال ہی اسلام آباد ہائیکورٹ میں جھوٹے توہین کے الزامات والا جو گینگ سامنے آیا ہے ، جس میں وکلا ، پولیس ، ایف آئی اے حتی کہ جج تک ملوث رہے ہیں ، آپ اس عدالتی کاروائی کی تفصیلات پڑھ لیں کہ کس طرح معصوم شہریوں کو خوبصورت خواتین کے جال میں پھنسا کر انہیں توہین کے جرم میں گرفتار کیا جاتا تھا اور رہائی کے لئے لالھوں کا مطالبہ کیا جاتا ۔
کچھ لوگ کہیں گے کہ سیلاب کے دنوں میں توہین کے موضوع کو چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے؟
بھئی، یہی تو انہی مولویوں کا فتویٰ ہے کہ فسق، فجور اور ظلم کی وجہ سے سیلاب اور زلزلے جیسی آفات آتی ہیں۔
تو اب بتائیے! خدا اور رسول کے نام کو اپنی ذاتی انا کے لیے استعمال کرنا اس سے بڑھ کر ظلم اور گناہ کا عمل اور کیا ہو سکتا ہے؟
واپس کریں