مودی زدہ طالبان کی مہم جوئی... ایک بھیانک غلطی
طاہر سواتی
افغان طالبان نے مودی کی "آتما" کو سکون پہنچانے کے لیے کل رات اپنی تاریخ کی سب سے بھیانک غلطی کی۔ درحقیقت، بھارت، ٹی ٹی اے (تحریک طالبان افغانستان)، ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) اور پی ٹی آئی کا یہ گٹھ جوڑ کافی عرصے سے چل رہا تھا، جس میں بھارت کی طرف سے تکنیکی اور مالی امداد، دونوں طالبان گروپوں کی طرف سے افرادی قوت کی فراہمی، اور پی ٹی آئی کی جانب سے سوشل میڈیا پر تشہیر شامل تھی۔ ہم گاہے بگاہے لکھتے رہے، لیکن اس خفیہ گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنا یا ثابت کرنا ہم جیسوں کے بس سے باہر تھا۔ اکثر ہم سے ثبوت مانگے جاتے تھے، لیکن مُتقی کے بھارتی دورے اور کل رات کے حملے نے سب کچھ روزِ روشن کی طرح عیاں کر دیا۔
اب یہ غلط فہمی دور ہو گئی کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی والوں سے مختلف ہیں۔ اس کارروائی کے بعد، جب پاکستانی قوم افغان طالبان کو اپنا دشمن سمجھتی ہے، تو ٹی ٹی پی کے ساتھ نرمی یا مذاکرات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب سوائے طالب خان کے پیروکاروں کے، ان کا کوئی ہمدرد نہیں رہا۔
خود افغان طالبان اندرونی طور پر تین دھڑوں—دوحہ، قندھاری اور کوئٹہ شوری گروپ—میں تقسیم ہیں۔ عالمی پابندیوں کی وجہ سے ان کی معاشی حالت دن بدن خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ادھر جب سے صدر ٹرمپ نے بگرام ایئر بیس کو واپس لینے کا اعلان کیا ہے، ان کے ہاتھ پاؤں پھولے ہوئے ہیں۔
گزشتہ دنوں ان کا ایک بارہ رکنی وفد براستہ دوحہ امارات میں اشرف غنی سے ملاقات کر کے آیا ہے اور اسے پیشکش کی ہے کہ آپ دوبارہ واپس آئیں اور ایک مدت کے لیے صدارت کی کرسی اس شرط پر سنبھالیں کہ اس کے بعد دو مدتیں ہماری ہوں گی، ساتھ ہی ضلعی سطح تک سارا نظام ہمارے کنٹرول میں رہے گا۔ مقصد یہ تھا کہ اشرف غنی کی صورت میں کرسیِ صدارت پر دنیا کو ایک نرم چہرہ دکھا کر مالی معاملات درست کیے جائیں، اور بگرام ایئر بیس دینے کا طوق بھی اسی کی گردن میں ڈال دیا جائے۔ بعد میں اسے مار کر ہیرو بن جائیں گے۔
اب امریکہ بگرام ایئر بیس کو فضائی حملے سے تباہ تو کر سکتا ہے، لیکن اس پر قبضہ نہیں کر سکتا۔ قبضے کے لیے اسے زمینی مدد درکار ہے، اور پاکستان سب سے قریبی پڑوسی ہے۔ لیکن اس سلسلے میں پاکستان کی معاونت اندرونی طور پر کئی مسائل پیدا کر سکتی تھی، خاص طور پر ٹی ٹی پی اور پی ٹی آئی کے بیانیے کو تقویت مل سکتی تھی۔ اب کل رات طالبان کی مہم جوئی نے پاکستان کی یہ مشکل انتہائی آسان کر دی۔ اگر ہمارے ابدی دشمن بھارت اور ٹی ٹی پی ان کے جگری یار ہو سکتے ہیں، تو پاکستان بھی ہر طالبان مخالف قوت کے ساتھ ہاتھ ملانے میں حق بجانب ہوگا۔ پاکستان اگر بگرام پر قبضے کے لیے مدد فراہم نہ بھی کرے، تو کابل میں رجیم کی تبدیلی میں کبھی بھی تامل نہیں کرے گا، کیونکہ اصول یہی ہے کہ دشمن کا دوست دشمن، اور دشمن کا دشمن دوست شمار ہوتا ہے۔
اس لیے کل رات ہی لکھا تھا کہ اب یہ پھگڑیوں والے زیادہ عرصہ تختِ کابل پر براجمان نہیں رہیں گے۔
طالبان کی حالیہ مہم جوئی نے پاکستان میں موجود افغان مہاجرین کی مشکلات میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ جو افغانی پولیس اور ایجنسیوں سے چھپ کر عام آبادی میں رہائش پذیر ہو گئے تھے، اب مقامی لوگ خود ہی ان کی نشاندہی کریں گے، اور ان کی باعزت اور مرحلہ وار واپسی اب بہت شرمناک انداز میں ہوگی۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پاکستانی فوج اور قوم میں انتشار پیدا کرنے کے لیے دعویٰ کیا ہے کہ
“پاکستانی فوج کا ایک دھڑا افغانستان کی بہتر ہوتی سلامتی صورتحال اور اس کی ترقی سے خوش نہیں ہے۔ یہ مخصوص گروپ اب افغانستان کے خلاف سازشیں رچا رہا ہے۔ ہم یہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی فوج کی اکثریت، سیاست دان، علمائے کرام اور عوامی حلقے اس مخصوص گروپ کے افغانستان مخالف ایجنڈے سے متفق نہیں ہیں۔"
ذبیح اللہ مجاہد سے گزارش ہے کہ پاکستانی قوم اور فوج اس معاملے میں مکمل طور پر یکسو ہے۔ سوائے "ناچو" قبیلے، اس کے سردار، اور چند فیض یافتہ جرنیلوں کے، کوئی بھی آپ کی شکل تک دیکھنا پسند نہیں کرتا، اور یہ بیان آپ کو انہیں نے رٹایا ہوا ہے۔ یاد رہے، یہی بیانیہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا پر پھیلایا جا رہا ہے۔ اب بھی کیا کوئی شک ہے کہ یہ سارے پاکستان مخالف ایک صفحے پر کیوں ہیں؟
متقی بھارت میں بیٹھ کر یہ رام کہانیاں سنا رہا ہے کہ انگریز سے ہماری تاریخ پوچھو، فلاں سے ہماری تاریخ پوچھو۔
جی ایک انگریز سے پوچھا گیا تھا کہ امریکہ افغانستان میں بیس سال کے بعد بھی کامیاب نہیں ہوا تھا، تو اس نے کہا تھا:
“ اس کا ایک ہی جواب ہے—پاکستان۔"
آج سے 35 سال قبل، جب سوویت یونین کے خاتمے پر دیوارِ برلن گرائی گئی اور مشرقی و مغربی جرمنی ایک ہونے لگے، تو کسی نے جرمنوں سے پوچھا تھا کہ آپ لوگوں کا تو دعویٰ تھا کہ جرمن دنیا کی سب سے عظیم قوم ہے۔ افغانستان جیسے ملک نے سوویت یونین کو شکست دی، لیکن جرمنی اس کے سامنے ڈھیر ہو گیا اور اپنے آپ کو نہ بچا سکا، اس کی کیا وجہ ہے؟ ان کا جواب تھا:
"ہمارے پڑوس میں کوئی پاکستان نہیں تھا۔"
متقی صاحب، انگریز چھوڑیں، آج جب آپ بھارت کے مشیر برائے قومی سلامتی اجیت دوول سے ملاقات کرنے جائیں، تو اس سے اپنی حقیقت ضرور پوچھیے گا، جس نے آج سے 12 سال پہلے کہا تھا:
"افغان طالبان دیوبند کی بہت مانتے ہیں۔ ہم ان پر اثر انداز ہونے کے لیے دیوبند کو استعمال کریں گے۔ طالبان پیسوں کے لیے لڑ رہے ہیں، اگر انہیں 1,200 کروڑ مل رہے ہیں، تو ہم انہیں 1,800 کروڑ دے کر استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ کرائے کے سپاہی ہیں۔"
جو آج تختِ کابل پر فرعون بنے بیٹھے پاکستان کو للکار رہے ہیں، یا پاکستان میں ان کے ہم مسلک مولوی بڑھکیں مار رہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ یہ گمشدہ باب رہنے ہی دیں تو بہتر ہے۔
ہمیں 1993ء میں کوئٹہ چھاؤنی میں طالبان کو ٹینک اور توپ سکھانے سے لے کر 2021ء میں کابل کی فتح تک سب کچھ یاد ہے۔
تم کس کے پراکسی تھے؟
کس کی شہ پر مسلمانوں کا خون بہاتے رہے؟
اور ابھی کن شرائط پر آئے ہو؟
واپس کریں