دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ان زومبیز کو اس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا
طاہر سواتی
طاہر سواتی
ہمارا تو شروع سے یہی موقف تھا کہ افغان اور پاکستانی تالبان میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں کا منشور ایک ہے، نظریہ ایک ہے، اساتذہ اور تربیت دینے والے مدارس ایک ہیں، امیر ایک ہے۔ صرف طریقہ کار میں معمولی سا فرق تھا، اب وہ بھی ختم ہو چکا ہے۔ پہلے دونوں مل کر افغانستان میں دھ شتگری کرتے رہے اور اب دونوں پاکستان کے خلاف کمربستہ ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں ان کے حامی اب منافقانہ طرز عمل اپناتے ہوئے فی الحال خاموش ہیں، لیکن خدا نہ کرے ان کو کامیابیاں ملیں تو پھر ان مولویوں کا دھمال دیکھنے والا ہو گا۔
استنبول میں تیس گھنٹے تک لاحاصل مذاکرات ہوتے رہے۔ نہ صرف ترکی اور قطر پاکستان کے منطقی اور مدلل مطالبات کو معقول اور جائز تسلیم کر رہے ہیں، بلکہ دلچسپ طور پر افغان تالبان کا وفد خود بھی سمجھتا ہے کہ ان مطالبات کو ماننا درست ہے۔ لیکن وہ بے اختیار ہیں۔ کسی بھی بات پر پیش رفت سے پہلے، جب وہ کابل سے رابطہ کرتے ہیں تو وہاں سے کچھ اور "پڑھایا" جاتا ہے۔ اس وقت مذاکراتی وفد کابل جبکہ کابل قندھار کے سامنے بے بس ہے، اور قندھار میں براجمان ہیبت اللہ کسی اور کے ایجنڈے پر ہے۔ اس طرز عمل پر میزبان بھی حیران و پریشان ہیں۔
پاکستانی وفد نے بارہا یہ نکتہ واضح کیا ہے کہ ان مطالبات کو تسلیم کرنا سب کے مفاد میں ہے۔ میزبان ممالک نے بھی افغان وفد کو یہی بات سمجھائی ہے، لیکن ان کرائے کے قاتلوں کو اپنے عوام کی مشکلات کا ذرا بھی احساس نہیں ہے۔
ان زومبیز کی حرکتوں کی وجہ سے افغان مہاجرین انتہائی سخت موسم میں واپس جانے پر مجبور ہیں۔ دوسری جانب طورخم بارڈر پر پھل، سبزیاں خراب ہو رہی ہیں۔ تاجروں کے لاکھوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ اگر بارڈر لمبے عرصے کے لیے بند رہا تو کاشتکاروں کو بہت زیادہ مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
تباہ حال افغانستان میں نہ صنعتیں ہیں، نہ روزگار کے دیگر مواقع۔ صرف کاشتکاری سے غریب لوگ اپنی روزی روٹی پیدا کر رہے ہیں، اور ان کے زرعی اجناس کی سب سے بڑی منڈی پاکستان ہے۔ لیکن ان باتوں کا احساس تب ہوگا جب خود کبھی کمایا ہو۔ اجرتی قاتلوں کو پیسہ اور سر کے علاوہ کسی اور چیز سے کیا سروکار؟ اس وقت بھارتی پیسہ اور پاکستان کا سر ان کے سامنے ہے۔ ان زومبیز کو اس کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔
واپس کریں