دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ہائبرڈ جمہوریت اور پاکستان
طاہر سواتی
طاہر سواتی
پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک عجیب ارتقائی سفر کی حامل ہے، جہاں جمہوریت کی جڑیں کبھی اتنی گہرائی تک نہیں اتر سکیں کہ وہ مستقل شجرِ شہریار بن سکیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ 1958ء میں شروع ہونے والی فوجی آمریتوں سے بھی پہلے، سول بیوروکریسی کے ہاتھوں میں ہی اصل اقتدار مرکوز رہا۔ درحقیقت، ہم ایک دن کے لیے بھی حقیقی جمہوریت کے مزے لوٹ نہیں سکے—یہاں تک کہ اس دور میں بھی نہیں جب “بابائے قوم “ گورنر جنرل اور “ قائدِ ملت “ وزیراعظم تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو صوبہ سرحد میں خدائی خدمتگاروں کی منتخب حکومت کو غیر آئینی طریقے سے برطرف نہ کیا جاتا، اور نہ ہی بابڑہ کے پرامن جلوس پر گولیاں برسا کر سینکڑوں عوام کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا۔ پاکستان کی فوجی آمریتوں کے تاریک ترین ادوار میں بھی اس قسم کی خونآلود مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔
آج کل 'ہائبرڈ جمہوریت' یا 'ہائبرڈ نظام' کے بہت چرچے ہیں۔ اس پر سب سے زوردار نعرہ بازی 'ناچو قوم' کر رہی ہے، حالانکہ ان کا اپنا لیڈر اسی نظام کا معمار ہے—وہی جو جرنیلوں کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا اور پھرہمیں اسی ڈھانچے کے 'فوائد' گنوا رہاتھا۔
اقتدار میں آنے سے پہلے یہی لیڈر نواز شریف پر طعنہ زنی کرتا تھا کہ اس نے جنرل مشرف کی 'چھٹی' کیوں نہیں کروائی، مگر خود وزیراعظم بننے کے بعد جنرل باجوہ کی 'چھٹی' کروانے کی بجائے اس بات پر فخر محسوس کرتا رہا کہ "فوج کو پتہ ہے کہ میں اتوار کو بھی چھٹی نہیں کرتا۔" ان کے وزراء بڑے فخر سے کہتے تھے کہ "آرمی چیف قوم کا باپ ہوتا ہے"—مگر آج یہی لوگ جمہوریت کے علمبردار بنے ہوئے ہیں۔
دوسرے نمبر پر ہائبرڈ نظام کی دہائی دینے والے وہ مذہبی طبقے ہیں جن کی ھمدردیاں اس ملک کی بجائے بیرون ملک اپنے ہم مسلکوں کے ساتھ ہیں ۔
ان میں سے کچھ افغانستان پر قابض طالبان زومبیوں کے مداح ہیں، کچھ تہران کے ملاّئیت کے گن گاتے ہیں، اور کچھ نے سعودی وہابیت کو اپنا روحانی قبلہ بنا رکھا ہے—مگر یہ سب پاکستان میں 'حقیقی جمہوریت' کے خواہاں ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہائبرڈ نظام تو کجا، یہاں کا سخت سے سخت مارشل لا بھی ان کے آئیڈیل ممالک میں رائج نظاموں سے کہیں زیادہ جمہوری اور آزاد رہا ہے۔
ہم نے تاریخ کی کتابوں میں ایوب کے مارشل لا کے خلاف عوامی تحریک پڑھی، ضیاء الحق کے دور میں احتجاجی جلوس دیکھے، اور مشرف کی آمریت کے خلاف تحریکوں میں حصہ لیا۔ مگر آج، جس 'سیٹ اپ' کو تاریخ کا سب سے جابر نظام قرار دیا جاتا ہے، موجودہ ہائبرڈ دور میں بھی گنڈاپور آئے روز پوری سرکاری مشینری کے ساتھ اسلام آباد پر حملہ آور ہوتا ہے ۔
ذرا تصور کریں: کیا ہرات یا ہلمند کا کوئی گورنر ہیبت اللہ کی امارت کو للکار کر کابل پر چڑھائی کر سکتا ہے؟ نہ نام بچے گا، نہ نشان۔
کیا ایران میں اصفہان یا ہمدان کا گورنر آیت اللہ کی بالادستی کو چیلنج کرتے ہوئے تہران پر لشکر کشی کر سکتا ہے؟ اس کے تو وجود کا ہی پتہ نہیں چلے گا۔
باقی رہی بات سعودی نظام کے علمبرداروں کی، تو ان کے لیے تو جمال خاشقجی کی ایک مثال ہی کافی ہے۔
جو لوگ سچے دل سے جمہوری اقدار پر یقین رکھتے ہیں، ان کی بات سمجھ میں آتی ہے۔ باقی سب سے گزارش ہے کہ وہ اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں—اپنے آپ سے پوچھیں کہ ہم کس 'جمہوریت' کی بات کر رہے ہیں۔
واپس کریں