طاہر سواتی
ستائیسویں آئینی ترمیم پر تو ابھی بحث جاری ہے، اس پر بعد میں بات ہوگی۔ آج بات ہو جائے جمہوریت کی اور ہمارے اجتماعی رویے کی، کیونکہ جب سے یہ ترمیم پیش ہوئی ہے، عمران خان اور دیگر "انقلابی" رہنماؤں کے حامیوں کو جمہوریت کا درد اٹھنے لگا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو کبھی "ایمپائر" کی انگلی سے دن کا آغاز کرتے تھے اور رات کو وہی انگلی چوستے ہوئے سو جاتے تھے۔
سچ تو یہ ہے کہ اس ملک میں حقیقی جمہوریت کبھی آئی ہی نہیں۔ یہاں تک کہ اس وقت بھی نہیں جب بابائے قوم گورنر جنرل اور قائد ملت وزیر اعظم تھے۔ آزادی کے چوبیس سال بعد پہلے جمہوری اور منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ٹھہرے۔ اگر بنگلہ دیش نہ بنتا تو یہ اعزاز شیخ مجیب الرحمان کے نام ہوتا۔
یہاں کی بڑی سیاسی جماعتوں کی جنم بھومی کوئی نہ کوئی چھاؤنی ہی رہی ہے۔ لیکن اگر اس ملک کی لولی لنگڑی جمہوریت کی داستان لکھی جائے تو وہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے بغیر ادھوری ہے۔
آج عمران نیازی اور ان کے "چیلے" خود کو انقلابی ظاہر کر کے ہمیں جمہوریت کا طعنہ دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان کی جدوجہد واقعی جمہوریت کے لیے ہے؟ نہیں، ان کا مقصد صرف ایک ہے: فوج اور سیاسی حکومت کے درمیان تصادم کرواؤ، تاکہ جرنیل ایک بار پھر انہیں کندھوں پر بٹھا کر اقتدار کے ایوانوں تک پہنچا دیں۔ ورنہ دو سال تک ان کی پارٹی نے جمہوریت کی مضبوطی کے لیے پارلیمنٹ میں کیا کردار ادا کیا؟ عمران نیازی کا ہر دن اسی راگ سے شروع ہوتا ہے: "میں صرف آرمی چیف سے بات کروں گا"۔ آخر کن آئینی دفعات کی رو سے ایک سیاسی لیڈر براہ راست آرمی چیف سے مذاکرات کا مطالبہ کر رہا ہے؟
نواز شریف نے اس ملک میں سول بالادستی کے لیے جو کچھ کیا، عمران خان اور ان کے حامی اگلے دس جنموں میں بھی نہیں کر سکیں گے۔
1993 میں اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے صدر غلام اسحاق خان سے ٹکرا کر گھر چلے گئے، لیکن ڈکٹیشن نہیں لی۔
پھر جب اقتدار میں آئے تو نیول چیف منصور الحق کو کرپشن کے کیس میں گھر بھیج دیا۔
سابق آرمی چیف جہانگیر کرامت نے جب قومی سلامتی کونسل کی تجویز پیش کی تو نواز شریف نے ان سے استعفیٰ لے لیا۔
اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے صدر فاروق لغاری کی چھٹی کروا دی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے جب اپنی بادشاہت قائم کرنے کی کوشش کی تو ان کی حقیقت بھی دنیا کے سامنے لائی اور انہیں بھی گھر بھیج دیا۔
لیکن ان تمام سورماؤں سے ٹکرانے پر اسفندیار ولی خان کے سوا کسی نے نواز شریف کا ساتھ نہیں دیا۔
سب اسی کو طعنے دیتے رہے کہ یہ اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کر کے "امیر المومنین" بننا چاہتا ہے۔ یہاں تک کہ 12 اکتوبر 1999 کو جب مشرف نے آئین پامال کرتے ہوئے منتخب وزیر اعظم کو گرفتار کیا، تو اگلے ہی دن سوائے اے این پی کے تمام سیاسی جماعتیں اور ان کے "انقلابی" رہنما بوٹ پالش کرتے نظر آئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اس دوڑ میں سب سے آگے تھیں۔
چودہ سالہ طویل جلاوطنی کے بعد نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم بنے تو پہلے ہی سال جرنیلوں نے اپنے پیادے میدان میں اتار دیے۔ لیکن یہ نواز شریف ہی تھے جنہوں نے اتنے گھمبیر حالات میں مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا۔ جب دھرنے عروج پر تھے، تو مشرف کے وکیل قصوری نے حامد میر کے پروگرام میں برملا کہا کہ اگر نواز شریف آج ہی مشرف کے خلاف مقدمہ واپس لے لیں تو سارے دھرنے ختم ہو جائیں گے۔ آج وہی نیازی اور ان کے حامی ہمیں جمہوریت کا درس دے رہے ہیں۔ جب "ایمپائر" کی انگلی کے سہارے دھرنے ناکام ہوئے تو پانامہ کا ڈرامہ رچایا گیا۔
پانامہ پیپرز میں 440 لوگوں کے نام تھے، مگر کسی ایک پر بھی نہ مقدمہ چلا نہ سزا ہوئی۔ نواز شریف کا نام اس میں شامل نہیں تھا، لیکن انہیں سزا ہو گئی۔ آج عدلیہ کی آزادی کا رونا رویا جا رہا ہے۔ یہ وہی عدلیہ ہے جسے جب آئین اور قانون میں کچھ نہیں ملا تو اس نے "بلیک لا ڈکشنری" کھول کر نواز شریف کو سزا سنا دی۔ یہ دنیا کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے جہاں سپریم کورٹ نے پہلے سزا سنائی اور پھر مقدمہ ٹرائل کورٹ میں بھیجا۔
اعزاز سید کے مطابق اس وقت نواز شریف کے ایک قریبی ساتھی نے ججوں کو رقم دے کر مقدمہ ختم کروانے کی پیشکش کی، جس پر کچھ جج راضی بھی ہو گئے۔ لیکن جب نواز شریف کو اس کا پتہ چلا تو انہوں نے انکار کر دیا، کہا کہ "میں اپنے ضمیر کو کیا جواب دوں گا"۔ نواز شریف کو غیر آئینی طریقے سے گھر بھیجنے پر کسی "انقلابی" کو شرمندگی نہیں ہوئی۔ بلکہ آج سب سے زیادہ "بااصول" بننے والی جماعت اسلامی اور اس کے امیر سراج الحق کا تو نیازی کے ساتھ کریڈٹ لینے کا مقابلہ چل رہا تھا۔
پھر کس طرح "آر ٹی ایس" بٹھا کر عمران نیازی کو جتوایا گیا۔ نواز شریف نے بیمار بیوی کو بستر مرگ پر چھوڑ کر جس طرح خود اپنی بیٹی کے ساتھ گرفتاری دی، اور پھر کیسے عمران اور فیض کے حکم پر کلثوم نواز سے آخری بار بات نہیں کرنے دی گئی، یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔
نیازی دور کے وزیر داخلہ، بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ نے خود اقرار کیا کہ اگر نواز شریف اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی پالیسی اختیار نہ کرتے تو آج بھی اقتدار میں ہوتے۔
ان سب کے باوجود ان انقالبیوں کا خیال ہے کہ نواز شریف ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ لیکر ان کے لئے خوشیوں کا سامان پیدا کرے ،یہ نہیں ہو سکتا،
حقیقی جمہوریت تو یہاں کبھی تھی ہی نہیں۔ جو لنگڑی-لڑکھڑاتی جمہوریت تھی، اس کا جنازہ اس روز نکل گیا جب سپریم کورٹ نے "اقامہ" کی بنیاد پر منتخب وزیر اعظم کو تاحیات نااہل کر دیا۔ اور انصاف کی موت اس وقت ہو گئی جب عدلیہ نے فیض حمید کے حکم پر جسٹس قاضی فیض عیسیٰ کے خلاف کارروائی کی اور جسٹس صدیقی کو برطرف کر دیا۔
یہ ہائبرڈ نظام جسے فیض، عمران اور باجوہ نے مسلط کیا ہے، کم از کم ہماری زندگی میں تو اس کے خاتمے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
اب اس کیچڑ میں مقابلہ صرف کارکردگی کا ہے، اور اس میں ن لیگ کا کوئی مقابلہ نہیں۔
آج نواز شریف بڑی خاموشی سے اسی نظام سے انتقام لے رہے ہیں۔ انہوں نے گند کے اِس میدان میں اپنا وہ "شہباز" اتارا ہے جو انہی کے ہتھیار ان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ اس سے دلوں میں جو ٹھنڈک پڑ رہی ہے، اس کا سواد ہی کچھ اور ہے۔
لیکن!
جو آرمی چیف کو قوم کا باپ بتاتے رہے،
جو جرنیلوں کی انگلی پر ناچتے رہے،
جو باجوہ کو تاحیات چیف بنانے کی پیشکش کرتے رہے،
جو اس ہائبرڈ نظام کے اصل معمار ہیں،
وہی آج ہمیں جمہوریت کا سبق پڑھا رہے ہیں۔
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ
واپس کریں