دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
“بشریٰ مانیکا سے بشریٰ تسکین تک”
طاہر سواتی
طاہر سواتی
بشریٰ تسکین اور اوون بینیٹ جونز نے مل کر اکانومسٹ میں بشریٰ مانیکا اور مانی خان سے متعلق ایک تفصیلی کہانی شائع کی ہے۔ ظاہر ہے، بشریٰ جیسی شخصیت کا مقابلہ بھی کوئی بشریٰ ہی کر سکتی تھی۔
اس کہانی کی رپورٹنگ میں دس ماہ لگے، اور اب تک اس کا صرف دس فیصد حصہ ہی شائع ہوا ہے۔
سب سے پہلے اکانومسٹ کا پس منظر سمجھ لیں۔
یہ برطانیہ کا مشہور جریدہ ہے جس کا آغاز آج سے 182 برس قبل، سنہ 1843 میں ہوا۔ پہلے یہ بڑے سائز کے کاغذ پر شائع ہوتا تھا۔ آج بھی خبریں اور مختصر مضامین تو پرنٹ ہوتے ہیں، مگر طویل، تحقیقی اور بیانیہ مضامین ویب سائٹ پر شائع ہوتے ہیں۔ اس ڈیجیٹل میگزین کا نام—1843—اسی سالِ آغاز پر رکھا گیا ہے۔
یہ جریدہ مفت نہیں بلکہ سبسکرپشن پر پڑھا جاتا ہے۔
بشریٰ بی بی اور 804 کی رنگین شاموں والی کہانی 1843 میں شائع ہوئی ہے۔ یوتھیے اب اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے رہے ہیں کہ مضمون اکانومسٹ میں نہیں بلکہ 1843 میں چھپا ہے، حالانکہ مضمون کو خود اکانومسٹ کے آفیشل سوشل میڈیا ہینڈلز سے بارہا پوسٹ کیا گیا ہے۔ نجم سیٹھی، جنہوں نے اس ادارے میں 18 سال کام کیا، کہتے ہیں کہ وہاں کسی خبر کو شائع کرنے سے پہلے تین چار بار اس کی تصدیق کی جاتی ہے۔
اب ذرا بشریٰ تسکین کے بارے میں “تسکین” کر لیں۔
یاد ہوگا کہ سب سے پہلے عمر چیمہ نے یہ تہلکہ خیز خبر دی تھی کہ یکم جنوری 2018 کو بشریٰ اور نیازی کا عدت کے دوران نکاح ہوا ہے۔ اس وقت بشریٰ کے بچے، عمران خان اور ان کے پیروکار سب اس خبر کی تردید کر رہے تھے۔
بلکہ 9 جنوری کو صادق و امین نے اپنے ٹویٹ میں اس خبر کو جھوٹ قرار دے کر عمر چیمہ کو شرم دلانے کی کوشش بھی کی۔
یہ نکاح اس قدر خفیہ رکھا گیا کہ نکاح خواں مفتی سعید سمیت جن لوگوں کو اسلام آباد سے لاہور لے جایا گیا، ان سب کے موبائل فون وہیں اسلام آباد میں رکھوا دیے گئے تاکہ جیو ٹریس نہ ہو سکے۔
18 فروری کو جب شادی کا اعلان کیا گیا تو تصویر میں وہی سب لوگ موجود تھے جن کا ذکر عمر چیمہ نے پہلے ہی اپنی خبر میں کیا تھا۔
چار سال بعد، عدت میں نکاح کے کیس میں عدالت کے اندر نکاح خواں مفتی سعید، خاور مانیکا، بشریٰ اور عمران—سب نے اعتراف کیا کہ نکاح واقعی یکم جنوری کو ہی ہوا تھا۔
اور پھر 5 فروری 2024 کو عمر چیمہ نے پہلی بار انکشاف کیا کہ عمران خان کی شادی کی خبر کا سورس بشریٰ تسکین تھیں۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بشریٰ تسکین کوئی عام خاتون نہیں بلکہ بشریٰ مانیکا کی طرح پہنچی ہوئی ہستی ہیں۔ وہ 2010 سے پی ٹی آئی کے حلقوں میں جانی جاتی تھیں اور چیف آف اسٹاف نعیم الحق سمیت پارٹی کی ٹاپ لیڈر شپ سے قریبی تعلقات رکھتی تھیں۔
نعیم الحق کی زندگی کے آخری دنوں میں جب بشریٰ تسکین ان سے ملنے گئیں تو وہاں مفتی سعید بھی موجود تھے، جنہوں نے گفتگو کے دوران مانا کہ انہیں غلط فہمی میں رکھ کر عدت میں نکاح پڑھوایا گیا۔ اس گفتگو کی آڈیو بھی ریلیز ہوئی تھی۔
اب پی ٹی آئی والے کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں ن لیگ سے جوڑا جائے، حالانکہ بشریٰ تسکین خود تسلیم کر رہی ہیں کہ ان کا ن لیگ سے کوئی تعلق نہیں۔بلکہ 2016 میں ایک برطانوی پراجیکٹ کے سلسلے میں حکومت کے ساتھ شراکت داری کی تھی، مگر ن لیگ حکومت نے انہیں اس پراجیکٹ سے نکال دیا۔
کہانی کے لیے دونوں صحافیوں نے تقریباً دو درجن سے زائد افراد کے گھنٹوں انٹرویوز کیے،
جن میں نیازی کی بہنیں علیم خانم اور روبینہ خانم، بشریٰ کی بہن مریم وٹو، خاور مانیکا، جہانگیر ترین، عون چوہدری، اعزاز سید، زاہد گشکوری، کچھ ریٹائرڈ جرنیل اور چشم دید گواہ لطیف شامل ہیں۔
تحقیق کا معیار ایسا کہ ہر بات کو کراس چیک کیا گیا۔ مثال کے طور پر بشریٰ کی بہن مریم ریاض وٹو نے دعویٰ کیا کہ وہ اور بشریٰ نے کوئین میری کالج لاہور سے ڈگری لی ہے۔ اس دعوے کی تصدیق کے لیے رپورٹرز خود کالج پہنچے اور چار گھنٹے ریکارڈ چیک کیا۔ پرنسپل نے بتایا کہ ان ناموں کی کوئی طالبات کبھی داخل ہی نہیں ہوئیں۔
کہانی میں پاکستانی قوم کے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی—وہ سب کچھ پہلے ہی جانتے تھے۔ پیروکاروں کے ایمان میں بھی کوئی لغزش آنے والا نہیں ،
مگر اس کہانی کے دو پہلو اہم ہیں:
1. پہلی بار نیازی–پنکی فلم پوری ریلیز ہوئی ہے—ورنہ پہلے صرف ٹوٹے آتے تھے۔
2. سب سے اہم یہ کہ یہ اکانومسٹ جیسے عالمی مؤقر جریدے میں شائع ہوئی، جس سے دنیا کو “ریاستِ مدینہ” کے دعویدار کی اصل حرکات سے آگاہی ہو گئی۔ اب اس کا نام اوکسفورڈ جیسے اداروں کے چانسلر کے لیے نامزد ہونا بھی مشکل ہو جائے گا۔
جو حضرات آج بھی اس سب کو “ذاتی زندگی” کے پردے میں چھپانا چاہتے ہیں، ان سے عرض ہے کہ ذاتی زندگی کا ڈھونگ تو اسی روز ختم ہو گیا تھا جب بشریٰ مانیکا آستین چڑھا کر پشاور سے اسلام آباد پر چڑھائی کے لیے کنٹینر پر چڑھ گئی تھی ۔
دنیا بھر کے حکمران ذاتی زندگی کے حوالے سے بھی عوام کو جوابدہ ہوتے ہیں، تو “ریاستِ مدینہ” کے خلیفۂ وقت کو کس طرح استثنا دیا جا سکتا ہے؟
اسے تو بدن پر پہنے قمیص تک کا حساب دینا ہوتا ہے۔
بلکہ میں تو جمشید دستی عرف “دستے” کی اس بات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں:
“عمران نیازی چھ چھ بچوں کی ماؤں کو پھنسا کر ان کے گھر تباہ کرتا ہے۔ یہ بشریٰ بی بی کے گھر گیا، اس کی جوان اولاد تھی، اس کا گھر تباہ کیا۔ یہ جنسی دہشتگرد ہے، سب سے پہلے اسے کھسی کر دینا چاہیے۔”
واپس کریں