پاکستان دشمنی میں تالبان اور لبرل دونوں ایک ہی صفحے پر کھڑے ہیں
طاہر سواتی
پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں ایران، افغانستان، عرب ممالک اور حتیٰ کہ بھارت کے ترجمان تو بآسانی مل جاتے ہیں، مگر پاکستان کا ترجمان کوئی نہیں ہوتا۔
ان دنوں افغان پناہ گزین اپنے وطن لوٹ رہے ہیں، اور انہیں بخوبی علم ہے کہ یہ آفت ہم پر کس سبب نازل ہوئی۔ مگر ان کے نزدیک تالبان کا نام لینا گناہِ کبیرہ ہے اور پاکستان کو گالیاں دینا کارِ ثواب۔
جو افغان صحافی اور سماجی کارکن آج امریکہ، کینیڈا، یورپ یا آسٹریلیا میں بیٹھے ہیں، وہ بھی اپنے حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہرانے کے بجائے پاکستان پر ہی الزام تراشی کرتے ہیں۔
وہ دلیل دیتے ہیں کہ افغانستان کی بربادی کی جڑ پاکستان ہے۔ ماضی میں ہم خود بھی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی افغان پالیسی کے ناقد رہے ہیں، لیکن اگر افغانستان میں جمہوریت کی ناکامی میں پاکستان کا کردار تھا، تو تالبان کے اقتدار میں آنے کا کریڈٹ بھی تو اسی کو جاتا ہے۔ اگر لبرل طبقہ پاکستان کو برا بھلا کہہ رہا ہے تو تالبان کو کم از کم اس کے احسان مند ہونا چاہیے۔ اور اگر لبرل طالبان کے مخالف ہیں، تو پھر انہیں پاکستان کے حالیہ اقدامات کی تحسین کرنی چاہیے۔
مگر ایسا نہیں — پاکستان دشمنی میں تالبان اور لبرل دونوں ایک ہی صفحے پر کھڑے ہیں۔
تالبان کے خوف سے بھاگے ہوئے جمہوریت پسند صحافی آج انہی تالبان کی ترجمانی کر رہے ہیں۔
دوسری جانب، جس روس نے دس لاکھ افغانیوں کو ہلاک کیا اور چالیس لاکھ کو بے گھر کیا، اس سے کسی لبرل کو کوئی اعتراض نہیں۔ طالبان کے نزدیک تو ماسکو آج قبلۂ اوّل کا درجہ رکھتا ہے۔
امریکہ نے بیس برس تک افغانستان میں تباہی مچائی، لیکن لبرلز اسی کے جہازوں کے پہیوں سے لٹک کر وہاں پہنچنے کو آزادی سمجھتے ہیں، اور طالبان صبح و شام انہی سے اچھے تعلقات کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ بھارت نے روس اور امریکہ کے ساتھ مل کر لاکھوں افغانیوں کو مروا دیا، مگر آج یہی لوگ بھارت یاترا پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
پاکستان نے تو خود ان کے جنگ میں 67 ہزار جانوں کی قربانیاں دیں ۔
شروع میںٗ جب تالبان نے پاکستان کو نقصان پہنچایا تو لبرلز خوشی سے جھوم اٹھے، اور جب پاکستان نے جواب دیا تو چیخنے لگے کہ پختونوں پر ظلم ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب خودکش حملے سرحد کے اُس پار سے ہوتے ہیں تو کیا پختون نہیں مرتے؟ اُس وقت پختون خون کی حرمت کہاں چلی جاتی ہے؟
کل ہی خڈی، وزیرستان میں ایک خودکش حملے نے تین معصوم بچوں اور دو بے گناہ عورتوں کی جان لے لی۔ ان کے جسم راکھ بن گئے، ان کی چیخیں اب بھی مٹی میں سنائی دیتی ہیں۔
اسی خاندان کے نثار داوڑ، نے لکھا ہے:
“کل خڈی میں ہونے والے خودکش دھماکے میں میرا بیٹا، بیوی، بہن اور بھانجی شہید ہو گئے۔ میری فیملی پاسپورٹ بنوانے جا رہی تھی۔ اگلے مہینے میں نے انہیں اپنے ساتھ لے جا کر ایک پُرامن اور محفوظ زندگی گزارنے کا خواب دیکھا تھا۔ مگر ایک خودکش بمبار نے میرا ماضی، میرا حال، میرا مستقبل اور میری زندگی کی ساری جمع پونجی چھین لی۔ اللہ میرے شہیدوں کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔”
اس بے گناہ پختون خون پر کسی کے جذبات میں کوئی ہلچل نہیں ہوتی۔
لیکن جیسے ہی پاکستان ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرتا ہے تو یہ منافق چیخ اٹھتے ہیں کہ پاکستان معصوم افغانوں پر ظلم کر رہا ہے اور بات چیت سے مسئلہ حل کرے۔
سوال یہ ہے: بات چیت کیسے؟
پاکستان نے گزشتہ تین برسوں میں افغانستان کے ساتھ
دو سو فلیگ میٹنگیں،
دس جوائنٹ کوآرڈینیشن کمیٹی (JCC) اجلاس ہوئے،
آٹھ سو سفارتی احتجاج کئے،
دو سو میموز آئی ایس آئی کی جانب سے پیش کئے گئے ،
چین نے تین بار ثالثی کی ،
پاکستان نے علمائے کرام اور سفارتکاروں کے وفود بھی بھیجے۔اور خود وزیرِ خارجہ نے پانچ بار کابل یاترا کی۔
اس کے باوجود ایک ہزار سے زائد بار سرحد پار سے دہشت گرد حملے ہوئے، جن میں 3,800 پاکستانی شہید ہوئے — اور ان میں اکثریت پختونوں کی تھی۔
ایک طرف یہی نام نہاد قوم پرست پاکستان پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے چالیس لاکھ افغانوں کو اس لیے پناہ دی کہ انہیں افغانستان کے خلاف استعمال کرے، اور دوسری طرف جب انہی کو واپس بھیجتا ہے تو انہیں انسانی حقوق یاد آ جاتے ہیں۔
کل میں نے ایک ویڈیو دیکھی جس میں ایک افغان صحافی پاکستان میں موجود ایک افغان مہاجر سے کہہ رہا تھا: “تم سب پاکستان کے غلام ہو۔”
اس مہاجر کا جواب سنہری تھا:
“میں غلام ہوں، لیکن میری بیٹی صبح اسکول جا سکتی ہے۔ تم آزاد افغانستان میں ہو، لیکن تمہاری بیٹی گھر سے باہر قدم نہیں رکھ سکتی۔”
امریکی اثر کے زمانے میں — ان وحشیوں کو چھوڑ کر — پورا افغانستان آزاد تھا۔
آج، انہی کے ہاتھوں، پورا ملک غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔
جنہوں کروڑوں افغانیوں کے بنیادی حقوق سلب کرکے غلام بنایا ہوا ہے ان بے شرموں کو پاکستان میں TLP جیسے شدت پسندوں کے بنیادی حقوق کی فکر ہے۔
واپس کریں