دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
چالیس سالوں سے چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی پاکستان کے سر ہے
طاہر سواتی
طاہر سواتی
افغانستان کے جنوبی صوبے زابل میں ایک حالیہ فوجی پریڈ کے دوران طالبان کے ترانے میں یہ عہد کیا گیا کہ وہ ’اپنا سفید جھنڈا لاہور میں لہرائیں گے اور اسلام آباد کو جلا ڈالیں گے‘۔
اسی طرح، جنوب مشرقی صوبے خوست سے طالبان کے نائب وزیر داخلہ محمد نبی عمری کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی ہے، جس میں انہیں ’گریٹر افغانستان‘ کا ایک نقشہ وصول کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس نقشے میں پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کچھ علاقوں کو افغانستان کا حصہ دکھایا گیا ہے۔
گزشتہ دو عشروں سے ہمیں یہی پڑھایا جا رہا تھا کہ افغان طالبان اصل مجاہد ہیں اور ان کا تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے کوئی تعلق نہیں۔ ان دونوں گروہوں کو ایک قرار دینے والوں کو ہمارے ہاں اسلام اور علمائے حق کے خلاف پروپیگنڈا کرنے والا قرار دیا جاتا تھا۔ اب طالبان کے ایک سابق ترجمان اور وزارت اطلاعات کے رکن قاری سعید خوستی نے صحافی حسن خان کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس غلط فہمی کو دور کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ "ہم پاکستان کے خلاف ٹی ٹی پی کے مرنے والوں کو شہید سمجھتے ہیں۔ ہماری نظر میں ٹی ٹی پی کی لڑائی حق اور شرعی ہے۔"
اب دیکھنا یہ ہے کہ افغان طالبان کے حامی پاکستانی اس بیان کو کس طرح justify کریں گے۔ اس سے پہلے منور حسن نے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد بیت اللہ محسود کو شہید کہا تھا اور نیازی صاحب ان کے لیے دفاتر کھول رہے تھے۔ اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ اسی منور حسن کی جماعت اسلامی اور نیازی صاحب کو خیبر پختونخوا میں اقتدار سے نوازا گیا، جبکہ عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو، جس نے ان دہشت گردوں کی گولیوں کا سامنا کیا تھا، در بدر کر دیا گیا۔
اس وقت بھارت میں اچھا مسلمان وہی سمجھا جاتا ہے جو پاکستان کو برا بھلا کہے ، اچھا افغان وہی ہے جو پاکستان کو دھمکیاں دے۔ جبکہ پاکستان میں بہترین انقلابی وہی سمجھا جاتا ہے جو پنجاب کو گالیاں دے اور بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، ٹی ٹی پی اور افغانیوں کی ترجمانی کرے۔
میں نے ایک بھارتی وی لاگر کی ویڈیو دیکھی جس میں وہ موٹر سائیکل پر افغانستان داخل ہو رہا تھا۔ سیکیورٹی پر مامور افغان طالبان جنگجو کو جب پتہ چلا کہ وہ بھارت سے ہے تو اس نے کہا: "جاؤ جاؤ، پاسپورٹ اور ویزا چیک کرنے کی ضرورت نہیں، افغان اور انڈین بھائی بھائی ہیں۔" وہ وی لاگر بھی حیران و پریشان ہو کر تبصرہ کرتا ہے کہ عجیب بات ہے، آج کل پوری دنیا میں بھارتیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا، لیکن افغانستان میں ان کی بڑی آؤ بھگت ہے۔
آج کل ان کا بھائی چارہ بھارت کے ساتھ ہے،
لیکنُ گزشتہ چالیس سالوں سے چالیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی پاکستان کے سر ہے۔
آج بھی ان میں سے ایک بھی واپس جانے کے لیے تیار نہیں ۔
دنیا ان افغان طالبان کو کس نظر سے دیکھتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ کابل پر ان کے قبضے کے بعد کچھ افغان شہریوں کو پاکستان لایا گیا، جنہیں مختلف ممالک میں آباد کاری کے لئے بھیجنا تھا ۔
جرمنی کے حصے میں بھی کچھ افغانی آئے تھے۔ اب جرمنی کے وزیر داخلہ الیگزینڈر ڈوبرنڈٹ نے بدھ کے روز کہا ہے کہ انہوں نے پاکستان میں پھنسے ہوئے افغان شہریوں کو نقد رقم کی پیشکش کی ہے تاکہ وہ آبادکاری کے پروگرام کے تحت جرمنی آنے کی کوششیں ترک کر دیں۔
حالانکہ جرمنی کو اس وقت افرادی قوت کی شدید قلت کا سامنا ہے، لیکن وہ انہیںُ لینے کی بجائے پیسے دے کر جان چھڑانا چاہتے ہیں۔

واپس کریں