دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
آئینی ترمیم اور ضمیر کی آواز
طاہر سواتی
طاہر سواتی
مورخہ 14 مئی 2006ء کو پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی، کے درمیان لندن میں "میثاق جمہوریت" طے پایا۔ بعد میں مزید 15 جماعتیں اس میں شامل ہوئیں۔
آٹھ صفحات پر مشتمل میثاقِ جمہوریت پر صرف میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو کے ہی دستخط نہیں تھے، بلکہ اسفندیار ولی اور حاصل بزنجو (مرحوم) کے علاوہ، آج اس کے خلاف سب سے زیادہ شور مچانے والے عمران خان، مولانا فضل الرحمٰن بھی اس میں شامل تھے۔
اسی دستاویز میں آئینی عدالتوں کے قیام کا مطالبہ بھی شامل تھا۔ ابھی تک میثاقِ جمہوریت پر تقریباً 70 فیصد عمل درآمد ہو چکا ہے، جس میں آرٹیکل 58(2b) کے تحت صدر کے اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کے اختیارات کا خاتمہ، وزیرِ اعظم کا فوج کے سربراہ کو تعینات کرنے کے اختیار کی واپسی، اٹھارہویں آئینی ترمیم، نگران حکومت اور چیف الیکشن کمشنر کی تقرری سرِ فہرست ہیں۔
جو لوگ آج نئی آئینی ترمیم میں صدر کے استثنیٰ پر شور مچا رہے ہیں، وہ بھول جاتے ہیں کہ یہی آصف علی زرداری تھے، جنہوں نے میثاقِ جمہوریت کے تحت اپنے صدارتی اختیارات سے دستبرداری اختیار کی تھی۔
کوئی دو عشروں کے بعد جا کر میثاقِ جمہوریت کے تحت آئینی عدالت کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا۔ اس کی منظوری کے ساتھ ہی من اللہ اور منصور کے ضمیر جاگے اور وہ مستعفی ہو گئے۔ کچھ مزید ہم خیال بھی پر تول رہے ہیں، کیونکہ آئینی ترمیم کے بعد وہ تحریکِ انصاف کی بجائے صرف انصاف کے قاضی رہ گئے۔
سپریم کورٹ آئین کی پیداوار ہے، اور آئین پارلیمان کی۔ پارلیمان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ سپریم کورٹ کو اپنی مرضی کے کپڑے پہنائے، اس کی نوک پلک سنوارے، ججوں کی مدتِ ملازمت گھٹائے یا بڑھائے۔ آئین کا کوئی مخصوص بنیادی ڈھانچہ نہیں ہے جس میں ترمیم ممنوع ہو، اور کسی آئینی ترمیم کے لیے پارلیمان کو سپریم کورٹ کے ججوں سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔ یہ سارے مفروضے ان ضمیر فروشوں نے خود گھڑ رکھے ہیں۔
لیکن جو آج پارلیمان کے اختیارات پر سیخ پا ہیں، اُن کا ضمیر اُس وقت کیوں نہیں جاگا جب یہ ایک منتخب وزیرِ اعظم کا عدالتی قتل کر رہے تھے؟ جب ایک منتخب وزیرِ اعظم کو غیر آئینی حکم نامے سے برطرف اور تاحیات نااہل کر رہے تھے؟
گزشتہ 77 سالوں میں آئین کے یہ محافظ ہمیشہ آئین شکن ڈکٹیٹروں کے ساتھ ہی کھڑے نظر آئے ہیں۔ آمروں کو آئین میں ہر قسم کی ترمیم کا اختیار دینے والے آج پارلیمانی ترمیم پر شور مچا رہے ہیں۔ آج کے انقلابی من اللہ ڈکٹیٹر مشرف کے دور میں وزارتوں کے مزے لوٹتے رہے۔
جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے جنرل فیض کو عدالتی معاملات میں مبینہ مداخلت پر تنقید کی، تو ثاقب نثار نے بحیثیت چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل اس کا فوری نوٹس لیا اور ججوں کے خلاف پاکستان کی عدالتی تاریخ کی مختصر ترین کارروائی کے بعد جسٹس شوکت صدیقی کو ان کے عہدے سے برخاست کرنے کی سفارش کر دی۔ اس وقت یہی من اللہ آئین، قانون اور اپنے ساتھی جج کے بجائے جنرل فیض کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا، اور صلے کے طور پر اسلام آباد ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنا۔ یہ ہر فیصلہ فیض حمید کے مشورے سے کرتا تھا۔ فیض حمید کے کہنے پر ہی فواد حسن فواد کے ضمانت کے کیس کو 10 ماہ تک لٹکائے رکھا۔ اُتنا ہی آئین اور قانون کا پاس ہے تو شوکت صدیقی کی برطرفی کے وقت استعفیٰ دیتے، نہ اسلام آباد کے چیف جسٹس بنتے نہ سپریم کورٹ کے جج۔ اخلاقیات ہمیں اس وقت یاد آتی ہیں جب آگے عہدہ نظر نہ آ رہا ہو۔
اُن کا کام آئین کی تشریح کرنا تھا، لیکن انہوں نے خود سے آئین لکھنا شروع کر دیا۔ جو اپنے کہے کو آئین کہتے تھے، آج پارلیمان کے بنائے ہوئے ترمیم کو غیر آئینی کہہ رہے ہیں۔
جسٹس بندیال، منیب اختر اور اعجاز احسن کا یہ اعجاز بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے، جب انہوں نے منحرف ارکان کے بارے میں فیصلہ دیا کہ ان کا ووٹ شمار نہیں ہو گا اور وہ ڈی سیٹ بھی ہوں گے، کیونکہ ان کا تعلق پی ٹی آئی سے تھا۔ لیکن جب حمزہ شہباز کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی، تو پارٹی سربراہ چودھری شجاعت کے حکم کے خلاف ورزی کرنے والے مسلم لیگ (ق) کے ارکان کے بارے میں پھر اُس کے الٹ فیصلہ آیا کہ ان منحرفین کا ووٹ بھی شمار ہو گا اور ان کی رکنیت بھی ختم نہیں ہو گی۔ اور اس طرح ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کالعدم کر کے، حمزہ شہباز حکومت ختم اور پرویز الہی کی فوری حلف برداری کا حکم دیا گیا۔
انصاف کی فراہمی کی بجائے ان کو سیاست کا زیادہ شوق رہا۔ بلکہ ثاقب نثار نے تو صاف پانی، ہسپتالوں کی صفائی، بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے فنڈنگ، ناجائز تجاوزات کے خلاف کارروائی، اہم سیاسی اور دیگر شخصیات سے سکیورٹی واپس لینے کے احکامات اور آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے کانفرنس کا انعقاد جیسے حکومتی کاموں کا بوجھ بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اُٹھایا ہوا تھا۔
یہ وہ سیاست زدہ جج تھا جس نے ایک ڈسپنسری کا افتتاح کر کے شیخ رشید کی انتخابی مہم چلائی۔ آج جنہیں آئینی ترمیم غیر آئینی نظر آتی ہے، یہ وہی ہیں جن کے دور میں پارلیمان کو ایک کرنل چلاتا رہا۔ جو آدھی رات کو ایک گھنٹے میں 52 قانون پاس کرواتے رہے۔ جن کا انقلابی لیڈر عمران خان خود تسلیم کر چکا ہے کہ ہمیں بل پاس کروانے کے لیے ایجنسیوں کی مدد لینی پڑتی تھی۔ جنہوں نے اقتدار کے دوام کے لیے ولدیت کے خانے میں جنرل باجوہ کا نام لکھوایا تھا۔
کہا جاتا ہے کہ نئی آئینی ترمیم سے عدلیہ کے دانت نکال دیے گئے۔ اگرچہ یہ دانت انہیں اٹھارویں ترمیم کے تحت اسی پارلیمان نے دیے تھے، لیکن انہوں نے صرف سیاست دانوں کو ہی کاٹا۔ یہ وہ خصی خچر تھا جسے سدھانے کے لیے ایک کرنل ہی کافی تھا۔ جو ناگن سپیرے کو ہی کاٹنے لگے، اُس کے زہریلے دانت نکالنا ضروری ہوتا ہے۔
واپس کریں