دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
جس کا سالا "فرینڈز آف ازرائیل" نامی تنظیم چلا رہا ہے
طاہر سواتی
طاہر سواتی
۲۵ کروڑ کی آبادی میں صرف ایک ہی شخص کو یہودیوں کا داماد ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جس کا سالا "فرینڈز آف ازرائیل" نامی تنظیم چلا رہا ہے۔ یہ پاکستان کا واحد لیڈر ہے جس کے حق میں ازرائیل کی پارلیمنٹ میں آواز اٹھائی گئی، جس کے لیے امریکہ کے ہودی سینیٹر لابی کر رہے ہیں، جس کے دور میں ازرائیلی طیارہ پاکستان آیا ،اور جس کی جماعت کا پورا سوشل میڈیا نیٹ ورک وہی لوگ چلا رہے ہیں۔اسی طاقتور نیٹ ورک سے اس کے پیروکار ایک خاص ایجنڈے کے تحت ایک ہی جھوٹ پھیلا رہے ہیں کہ
"پاک سعودی دفاعی معاہدے کی حقیقت سامنے آگئی، پاکستان ازرائیل کو تسلیم کرنے جا رہا ہے۔"
اور حکومت پاکستان کی حالیہ ساری سفارتی کامیابیاں صرف اسی ایک شور کے نیچے دب کر رہ گئی ہیں۔
دوسری جانب گلوبل صمود فلوٹیلا جو 40 سے زائد کشتیوں پر مشتمل ہے اور قافلے میں 500 سے زیادہ افراد سوار ہیں۔ وہ جب کل اسرائیل کے سمندری حدود میں داخل ہوا تو اسرائیلی نیوی نے اس کا محاصرہ کرلیا ، ایسے موقعے پر اس پر سوار ایک سابقہ جماعتی اور حالیہ یوتھیا مشتاق احمد خان ازرائیل کی مذمت کرنے کی بجائے پاکستان کی ازرائیل کو تسلیم کرنے کا جھوٹا پروپیگنڈا پھیلا رہے ہیں ۔
یہ لکھ کر رکھ لیں کہ پاکستان کرہ ارض پر ازرائیل کو تسلیم کرنے والا آخری ملک ہوگا۔
یہ پاک سعودی معاہدے کا نتیجہ ہے کہ کل ٹرمپ نے ایک غیر معمولی ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے ہیں، جس کے مطابق قطر پر حملہ امریکہ پر حملہ تصور ہوگا۔ اب پاک سعودی معاہدے کا مذاق اڑانے والے بتائیں کہ پاک سعودی معاہد پر امریکہ کو خوشی ہے یا تکلیف ۔
اس وقت پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک، یورپی ممالک اور امریکہ کی خواہش ہے کہ جنگ بند ہو اور غزہ کے مصیبت زدہ عوام کو فوری ریلیف مل جائے۔ لیکن اصل فریق، یعنی خماس اور ازرائیل، دونوں جنگ جاری رکھنے کے حق میں ہیں۔ خماس کے لیے جنگ بندی اس کے وجود کا اختتام ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم کو بدعنوانی کے جرائم کا سامنا ہے، لیکن جب تک وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں، انہیں استثنیٰ حاصل ہے۔ حالیہ منصوبے پر وہ کس طرح راضی ہوئے، اس کا ہمیں اندازہ ہی نہیں۔
سی این این کے نامہ نگار بارک راوڈ لکھتے ہیں:
"ہفتے کے روز وائٹ ہاؤس کو یہ خدشہ تھا کہ نیتن یاہو غزہ میں جنگ ختم کرنے کے منصوبے کو مسترد کرنے والے ہیں۔ اس پر ٹرمپ نے نیتن یاہو سے ایک سخت فون کال کی اور انہیں کہا:
“ اگر تم نے اسے چھوڑا، تو ہم تم سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے۔'"
اسی واقعے کو سوئس صحافی گیوانی کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
“ ہفتے کے روز ٹرمپ کی ٹیم میں ایک افواہ پھیل گئی کہ نیتن یاہو اس منصوبے کو مسترد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، یا کم از کم اس میں بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا مطالبہ کریں گے۔ اس کے نتیجے میں ٹرمپ نے نیتن یاہو کو ایک 'سخت اور دو ٹوک' فون کال کی اور اسے صاف الفاظ میں کہا: 'یا تو اسے قبول کرو یا چھوڑ دو۔ اور اگر تم نے چھوڑا، تو اس کا مطلب ہے کہ ہم تم سے کنارہ کشی اختیار کر لیں گے۔' ٹرمپ نے ہفتے کے آخر میں نیتن یاہو سے پانچ بار فون پر بات کی اور اس سے کہا کہ وہ منصوبے کے لیے کسی 'اگر مگر' کے بغیر ایک 'واضح ہاں' چاہتے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کے ذرائع کے مطابق، کئی وجوہات کی بنا پر ڈونلڈ ٹرمپ نیتن یاہو کے معاملے میں اب بہت حد تک تنگ آ چکے ہیں۔"
نیتن یاہو کی حکومت کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادیوں (بیزلیل سموٹریچ اور اِتمار بن گویر جیسے) نے دھمکی دی ہے کہ اگر انہوں نے غزہ جنگ ختم کرنے کے عوض بہت زیادہ رعایتیں دیں تو وہ اُن کی اتحادی حکومت چھوڑ سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر اسے گِرا بھی سکتے ہیں۔ یوں نہ صرف نیتن یاہو کی حکومت ختم ہوگی اور انہیں سیاسی نقصان ہوگا، بلکہ استثنیٰ ختم ہوگا اور وہ سیدھے جیل جائیں گے۔
واشنگٹن جانے سے پہلے ہی نیتن یاہو کو معلوم تھا کہ انہیں وائٹ ہاؤس میں ایک مشکل فیصلہ کرنا پڑے گا۔ اسرائیل کے صدر آئزک ہرزوگ نے ایک ریڈیو پروگرام میں بتایا کہ وہ نیتن یاہو کو بدعنوانی کے اُن مقدمات میں معافی دینے پر غور کر رہے ہیں، جن کا نیتن یاہو کو سامنا ہے، تاکہ وہ بلا کسی ہچکچاہٹ کے یہ مشکل فیصلہ کر سکیں اور انہیں اپنی حکومت کے خاتمے کا ڈر نہ ہو۔ اس لیے نیتن یاہو نے پہلے منصوبے میں کچھ ترامیم کیں، اور پھر وائٹ ہاؤس میں امن معاہدے کے فوراً بعد اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اپنے ملک کے لوگوں سے کہا:
"میں نے فلسطینی ریاست کے قیام سے اتفاق نہیں کیا۔"
نیتن یاہو بذات خود اور اس کے اتحادی رہنما فلسطینی اتھارٹی کے غزہ میں کسی کردار یا فلسطینی ریاست بننے کے کسی امکان کے سخت مخالف ہیں۔ ادھر اسرائیلی میڈیا کی حالیہ رپورٹس کے مطابق، اسرائیلی کابینہ اس مجوزہ معاہدے کی تمام شرائط پر ووٹ نہیں دے گی، بلکہ صرف اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی رہائی پر ووٹ ہو گا۔
لیکن نیتن یاہو نے ٹرمپ کے دباؤ میں آ کر ایک ایسے معاہدے پر اتفاق کیا ہے جس میں ایک خودمختار ریاست کا قیام مشروط انداز میں شامل ہے۔ اب نیتن یاہو اور اس کی کابینہ اسی آس پر بیٹھے ہیں کہ شاید حماس خود ہی یہ معاہدہ مسترد کر دے گی، یا غزہ میں اپنے کمانڈروں کو کنٹرول نہیں کر پائے گی اور جنگ بدستور جاری رہے گی۔
اور خماس حسبِ دستور انہیں کبھی مایوس نہیں کرے گی۔
اس سے آپ اندازہ لگا لیں کہ اپنے ڈرائنگ رومز میں بیٹھ کر جس دو ریاستی حل کو ہم بڑے آرام سے مسترد کر دیتے ہیں، اسرائیل کے لیے اس کی قیمت کیا ہے؟
واپس کریں