دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
غربت، معیشت اور خارجہ تعلقات
طاہر سواتی
طاہر سواتی
پاکستان کے خارجہ تعلقات پر ایک فاضل دوست نے سوال کیا ہے کہ اس سے غریب کو کیا فائدہ ہوگا؟
یہ موضوع اتنا وسیع ہے کہ اس پر پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔
غربت دراصل معاشی مسائل کا شاخسانہ ہے، اور کسی ملک کی معیشت میںٗ بین الاقوامی تعلقات ریڑھ کی ہڈی کیٗ حثیت رکھتے ہیں ۔
کیونکہ آج کی دنیا ایک “گلوبل ویلج” بن چکی ہے۔ کوئی بھی ملک تنِ تنہا کچھ نہیں کر سکتا۔
یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ جیسا رہنما تجارتی محصولات (ٹیرف) کی بنیاد پر دوستوں اور دشمنوں کی لسٹیں ترتیب دے رہا ہے۔
اقتصادی بنیادوں پر استوار خارجہ تعلقات — دراصل وہ کلید ہے جسے نواز شریف جیسے دوراندیش رہنما نے برسوں پہلے پا لیا تھا۔
اسی لیے انہوں نے اپنے پہلے دور کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز کو دوسری مرتبہ وزیر خارجہ بنوایا، اور دوسرے اور تیسرے دور کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو اب وزیر خارجہ بنوایا ہے۔
اسحاق ڈار کے بارے میں تو فی الحال کچھ نہیں لکھوں گا، کیونکہ جب 2014 میں وہ معاشی ترقی کو بلندیوں پر لے جا رہے تھے تو یہی فاضل دوست انہیں “منشی” پکارتا تھا۔
صرف سرتاج عزیز مرحوم کی کہانی سن لیں۔ مردان میں پیدا ہونے والے سرتاج عزیز نے پاکستان کو بنتے دیکھا ہے۔ اس وقت وہ اسلامیہ کالج لاہور میں انٹر کے طالب علم تھے اور آل مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے سرگرم رکن تھے۔ تقسیمِ ہند سے پہلے، اپنے زمانۂ طالب علمی میں انہوں نے قائداعظم سے تین ملاقاتیں بھی کیں۔ قائداعظم کی جانب سے انہیں ’معمارِ پاکستان‘ بننے کی ترغیب ملنے کے بعد، انہوں نے معاشیات کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، تاکہ تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کی معاشی صورتِ حال کو بہتر بنانے میں کردار ادا کر سکیں۔ بعد میں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے معاشیات اور امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ان کی سوانح عمری "ڈریمز اینڈ ریئلٹی" پاکستان کے تعلیمی اداروں میں، جبکہ "چینی کی دیہی ترقی" (Rural Development: Learning from China) چین کے تعلیمی اداروں میں پڑھائی جاتی ہے۔ صرف اس کتاب کی وجہ سے کئی ممالک نے اپنی پالیسیاں تبدیل کر کے غربت پر قابو پایا۔ لیکن پاکستان جیسے بدقسمت ملک میں سیاسی عدم استحکام اور اسٹیبلشمنٹ کی مسلسل مداخلت سے معاشی ترقی ایک خواب ہی رہی۔
کسی ملک کے ساتھ خارجہ تعلقات بہتر ہوں تو وہاں سے سرمایہ کاری آتی ہے۔ اس ضمن میں ہمارے پاس تین ماڈل ہیں:
پہلا ماڈل — دوسری جنگِ عظیم کے بعد جاپان کا۔ جب جاپان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بحال ہوئے تو اس نے اپنی تباہ شدہ معیشت کی تعمیرِ نو کے لیے امریکہ سے ٹیکنالوجی، بھاری مشینری اور سامان درآمد کیا۔ اس سے جاپان کی آٹوموبائل اور الیکٹرونکس انڈسٹری کو فروغ ملا، جس نے معاشی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
دوسرا ماڈل — مہاتیر محمد کا ملائشیا، جس نے وہی ٹیکنالوجی جاپان سے حاصل کی۔
تیسرا ماڈل — چین کا، جہاں امریکہ اور مغربی ممالک کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے انڈسٹری لگائی، اور یوں چینی معیشت نے غیر معمولی ترقی کی۔
امریکہ یہی ماڈل بھارت میں آزمانے جا رہا تھا، لیکن شاطر مودی ٹرمپ کے ہاتھوں چڑھ گیا۔
یاد رکھیں، اس کے لیے سیاسی استحکام، امن و امان اور پالیسیوں کا تسلسل ضروری ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان ان تینوں سے محروم رہا ہے۔
سی پیک پراجیکٹ دراصل پاکستان کی خارجہ پالیسی کی کامیابی تھی۔ جس کےُ لئے ذرداری نے اپنے دور میں زمین ہموار کی اور پھر نوازشریف نے اسے شروع کرکے بہت جلدی آگے بڑھایا ،لیکن اس کے شروعات سے قبل ہی دھرنے شروع ہو گئے اور پھر آخر کار نواز شریف کو نااہل کرکے ایک نااہل کو وزیر اعظم بنواکر سی پیک کو پیک کردیا گیا ۔
اگر نواز حکومت کے خلاف جرنیل سازش نہ کرتے تو آج اسی ایک سی پیک کی وجہ سے غربت اور بیروزگاری ختم ہوتی ۔
خارجہ تعلقات کے اقتصادی کردار کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ ایران، جو سعودی عرب کے سوا خلیج تعاون کونسل کے باقی پانچ ممالک — متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، بحرین اور عمان — سے زیادہ تیل پیدا کرتا ہے، مگر خارجہ محاذ پر تنہائی کی وجہ سے عوام غربت کا شکار ہیں۔ تہران جیسے شہر میں پینے کے پانی کی قلت ہے۔
یاد رکھیں، معاشی ترقی کے ثمرات دیر سے جبکہ نقصان فوری طور پر سامنے آتے ہیں۔
مثلاً آج اگر پاکستان کسی ترقی یافتہ ملک کے ساتھ افرادی قوت کا معاہدہ کرتا ہے اور آپ کا نام فہرست میں پہلے نمبر پر آ بھی جائے، تب بھی وہاں جا کر روزگار حاصل کرنے اور پھر پیسہ کما کر وطن بھجوانے میں کم از کم ایک سال لگتا ہے۔
لیکن آپ امریکہ ہائی سکلُ ویزہ پرٗ لاکھوں ڈالر کمارہے ہوں اور اچانک ٹرمپ اعلان کر دے کہ “یکم اکتوبر سے بی ون ویزے والے ایک لاکھ ڈالر فیس دیں یا اپنے ملک واپس جائیں”، تو آپ تین دن میں عرش سے فرش پر آ جائیں گے۔
ان شاءاللہ اگر پاکستان میں سیاسی استحکام رہا تو موجودہ سفارتی کامیابیوں کے ثمرات غریب تک ضرور پہنچیں گے — لیکن اس میں کچھ وقت لگے گا۔
واپس کریں