طاہر سواتی
امید ہے کہ اب پی ٹی آئی، ٹی ٹی پی، افغان تالبان اور بھارت کے گٹھ جوڑ کے بارے میں کوئی ابہام باقی نہیں رہا ہوگا۔ جیسا کہ ہم نے اپنی ناقص معلومات کی بنیاد پر ٹی ایل پی کو بھی اس سازش کا حصہ قرار دیا تھا، لیکن کچھ دوست یقین نہیں کر رہے تھے۔ اب یہ بلی بھی تھیلے سے باہر آ ہی گئی ہے۔
افغانستان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ٹی ایل پی کے خلاف کارروائی میں مظاہرین کی مبینہ ہلاکتوں پر اپنی حکومت کی جانب سے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے:
“پاکستان میں تحریک لبیک پارٹی کی طرف سے قانونی فریم ورک کے مطابق کیے گئے احتجاج کے خلاف مظاہرین پر براہِ راست فائرنگ اور پرتشدد حملے کیے گئے، جس کے نتیجے میں شہریوں کو کافی جانی و مالی نقصان ہوا۔ ہمیں اس طرح کے تشدد اور معصوم شہریوں کے جانی نقصان پر گہرا دکھ ہے۔ ہم مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں اور پاکستانی حکومت اور اس کے ذمہ دار حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنے عوام کے خلاف تشدد کی مزید کارروائیاں بند کریں اور بات چیت و باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے حل تلاش کریں۔”
سب کہو سبحان اللہ!
اب چھلنی بھی کوزے کو سوراخ گنوا رہی ہے۔ جنہوں نے اپنے ملک میں ہزاروں اہلِ تشیع کو قتل کیا، پچیس لاکھ لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیے، اور اس پابندی کے خلاف نکلنے والی خواتین پر ہر قسم کا تشدد روا رکھا۔ جہاں کوئی اپنا قومی جھنڈا تک نہیں لہرا سکتا، جہاں جمہوریت کو کفر اور جلسے جلوس کو فتنہ قرار دیا جاتا ہے، اور مظاہرین پر گولیاں چلائی جاتی ہیں۔ جہاں عدالتوں کا کوئی نام و نشان نہیں؛ جہاں چیک پوسٹوں پر لمبی داڑھی والوں کو “داغس” کے شبہے میں اتار کر غائب کر دیا جاتا ہے، اور جہاں ہیبت اللہ کی ہیبت سے پرندہ تک پر نہیں مار سکتا — وہ ہمیں قانونی فریم ورک اور بنیادی حقوق سکھا رہے ہیں۔
ساری زندگی یہ دیوبندی ان بریلویوں کو مشرک اور بدعتی گردانتے رہے۔ سوات میں ان وحشیوں نے بریلوی مکتبِ فکر کے لوگوں کو چن چن کر قتل کیا، لیکن اب ان کا درد اٹھ رہا ہے، کیونکہ اب ایک “سہولت کار” کی نگرانی میں ایک ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں، اور وہ ہے — پاکستان میں انتشار۔
باقی چھوڑیں، کیا یہ ان بریلویوں کو افغانستان میں ربیع الاول کے جلوس نکالنے کی اجازت دیں گے؟
کیا افغانستان میں کوئی گروہ کابل کا محاصرہ کر سکتا ہے؟
افغانستان کے نوّے فیصد عوام ان کے خلاف ہیں، جنہیں انہوں نے بندوق کے زور پر غلام بنا رکھا ہے۔ ورنہ کل ہی آزادانہ انتخابات کرا کے تسلی کر لیں۔
دوسری جانب ان کے وزیرِ خارجہ متقی نے بھارتی ہم منصب کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں جموں و کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دیتے ہوئے وہاں کی تحریکِ آزادی کو بھارت کی سالمیت اور خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔
یہ وہی ہیں جنہوں نے ڈاکٹر نجیب سے لے کر ڈاکٹر اشرف غنی تک ہر مسلمان حکمران کے خلاف بندوق اٹھائی تو وہ “ج ہاد” تھا؛
افغانستان کی کلمہ گو فوج اور پولیس کو مارنا عین کارِ ثواب تھا؛
لیکن کشمیر میں مجاہدین کی جدوجہد ناجائز اور بھارت کی سالمیت کے خلاف ہے؟
جبکہ بھارت کا قبضہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں، بین الاقوامی قوانین اور انصاف کے عالمی اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ جموں و کشمیر کی حیثیت ایک بین الاقوامی تنازعے کی ہے، جس پر درجنوں قراردادیں اقوامِ متحدہ کے ریکارڈ پر موجود ہیں، جن میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کا مستقبل وہاں کے عوام کے آزادانہ حقِ رائے دہی سے طے ہونا ہے۔
یہ وہ نمک حرام ہیں جنہیں پاکستان نے مشکل ترین حالات میں سہارا دیا، سفارتی حمایت فراہم کی، اور جسے دنیا سے جوڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ آج یہی پاکستان کے زخموں پر نمک چھڑک کر “سانپوں کو دودھ پلانے والی” مثل کی عملی تصویر پیش کر رہے ہیں۔ یہ وہی طالبان ہیں جنہیں پاکستان نے بیس سالہ امریکی قبضے کے دوران سیاسی پناہ اور انسانی امداد فراہم کی۔ آج بھی لاکھوں افغان پاکستان میں رہائش پذیر ہیں، لیکن اب بھارت کے ساتھ بیٹھ کر وہ ایسا شرمناک مشترکہ اعلامیہ جاری کر رہے ہیں جو نہ صرف پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے بلکہ کشمیری عوام کی قربانیوں اور ان کی منصفانہ جدوجہدِ آزادی کی توہین بھی ہے۔
یہ طرزِ عمل سفارتی بدعہدی، اخلاقی دیوالیہ پن اور احسان فراموشی کی بدترین مثال ہے۔
اور اس پر پاکستان کی مذہبی جماعتوں، خاص طور پر جماعتِ اسلامی کی خاموشی بدترین منافقت ہے۔ یہی جماعت ہمیں بتاتی رہی کہ افغانستان کی فتح کے بعد سب مل کر سری نگر کا رخ کریں گے، مگر اب فتح کے بعد وہ سری نگر کے بجائے نئی دہلی میں دعوتیں اڑا رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی، افغان طالبان، پی ٹی آئی اور ٹی ایل پی ایک ہی تھالی کے چٹے بٹے ہیں —
اور جو شخص یا مذہبی جماعت ان کے ساتھ ہمدردی دکھائے، اسے بھی انہی میں شمار کیا جائے۔
واپس کریں