دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
دھندہ ہے یہ دھندہ ہے ۔ اظہر سید
اظہر سید
اظہر سید
بدترین لوگ جھوٹ بیچ کر بیوی بچوں کو پالتے ہیں۔ غلیظ ترین لوگوں کی زندگیوں سے کھیل کر چند سالہ زندگی کا بندوبست کرتے ہیں۔ نوسر باز کی حمایت کیلئے قائم کردہ چین اور پاکستان مخالف انفراسٹرکچر ان یوٹیوبر اور سوشل میڈیا انفلونسرز کو "ڈالروں میں کمائی"کی صورت نوازتا تھا ۔دیکھتے ہی دیکھتے
چند سال میں چند لوگ یوٹیوبر بن کر کروڑ اور ارب پتی ہو گئے ۔پہلے مالکوں کی کھڑلی میں پیٹ بھرتے تھے منہ کو ایسا خون لگا مالکوں کے دشمنوں کے ساتھ مل کر پیسے کمانے لگے ۔
بلاسفیمی بزنس گینگ کے کارنامے سامنے آنے لگے تو ایک شاطر نے اس میں پیسوں کی بو سونگھ لی ۔
بلاسفیمی بزنس گینگ کی حمایت میں اتر کر سند یافتہ مسلمان بھی بن گیا اور کمائی بھی شروع ہو گئی ۔
آج اس مہا حرامی یوٹیوبر کا پروگرام دیکھا فرما رہا تھا نوجوانوں کو ہنی ٹریپ کرنے والی ایمان یعنی کومل اسماعیل کوئی وجود نہیں رکھتی ۔سچے مسلمان گستاخوں کو پکڑنے کیلئے لڑکی بن کر ٹریپ کرتے تھے ۔
پہلے سوچا کوئی اتنا گھٹیا اور غلیظ کیسے ہو سکتا ہے ۔پھر سوچا نچلی سطح کے کمتر لوگ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔یہ انسانوں کی اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو ریاست پر دشمن حملہ کرے اس کے ساتھ مل جاتے ہیں۔
یہ لوگ انسانوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جو دلال کہلاتے ہیں۔
ہم اس بلاسفیمی والے معاملہ سے اچھی طرح آگاہ ہیں ۔ہم جانتے ہیں نوجوانوں کو ٹریپ کرنے والی ایک نہیں متعدد لڑکیاں ہیں ۔ہمیں پتہ ہے بلاسفیمی گینگ کے لوگ لڑکیوں کی آئی ڈی بنا کر بھی نوجوان کو ٹریپ کرتے تھے لیکن لڑکیاں بھی ہیں ۔کاش کمیشن بنے اور تحقیقات ہوں ،سیف سٹی کے کیمرے استمال ہوں تو پتہ چلے جی تیرہ کے میٹرو اسٹیشن سے جس نوجوان کو سفید کلٹس میں اٹھایا گیا اور پہلے آئی ایٹ لیجایا گیا اس میں ایمان فاطمہ عرف کومل اسماعیل تو موجود تھی لیکن پچھلی سیٹ پر بلاسفیمی گینگ کے دو رکن بھی موجود تھے ۔
جو مہاکلاکار بلاسفیمی گینگ کی لڑائی سوشل میڈیا پر لڑ رہا ہے وہ بھی انسانوں کی اس نسل اور قبیلہ سے تعلق رکھتا ہے جو چند روزہ زندگی کیلئے انسانی ضمیر ،محبت ہمدردی اور خوف خدا سے کوسوں دور ہوتے ہیں۔
یہ اصل میں وہ مسلمان ہیں جو مقدس کتاب ہاتھ میں لے کر شاگرد سے مشت زنی کروانے والے مولوی عزیز کی ویڈیو کے جواز اور اسکی بے گناہی کا فتویٰ دیتے ہیں اور لڑکی کے زریعے ٹریپ کئے گئے ملزم کو گستاخ بناتے ہیں مقصد صرف
"روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر"ہوتا ہے ۔
پتہ نہیں ریاست اور اس کے ادارے کیا کر رہے ہیں ۔صرف 35 لوگوں کے گینگ نے سینکڑوں گستاخ سوشل میڈیا کے زریعے پکڑ لئے ۔متعدد کو سزائے موت بھی سنا دی گئی ۔اج تک یہ پتہ نہیں چلا سکے توہین آمیز مواد بناتا کون ہے ۔ان گروپس کا ایڈمن کون ہے ۔ٹریپ ہو کر توہین آمیز مواد شئیر کرنے والے تو گستاخ قرار پائے لیکن بنانے والے منظر سے غائب ۔جب توہین آمیز مواد بنانے والوں کو پکڑنے کیلئے کمیشن بنانے کی بات ہو تو گستاخ گستاخ کے بلند آہنگ نعرے لگا کر رقص شروع کر دیتے ہیں۔
اس ملک کو بچانا اور چلانا ہے تو اسے جنگل بننے سے روکنا ہو گا اور ہر قیمت پر روکنا ہو گا ۔
واپس کریں