اظہر سید
یہ چار دنوں کا قصہ نہیں چار دہائیوں کی کہانی ہے۔ کشمیر اور افغان جہاد کیلئے ایندھن کی فراہمی کیلئے مدارس کی پینری سوچ سمجھ کر لگائی گئی تھی۔ یہ پینری اب جنگل بن چکی ہے۔ اسے اب کاٹنا بہت مشکل ہے۔
پاکستان کو 1980 کی دہائی کا اعتدال پسند معاشرہ بنانا ہے وقت کا پہیہ الٹا چلانا پڑے گا۔
دنیا جتنی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے کشمیر اور افغان جہاد کی کہانی دہرانا ممکن نہیں۔ جو ایندھن مدارس سے مسلسل ہر سال نکل رہا ہے اسکی کھپت نئی مساجد اور مدارس میں تو ممکن ہے صنعتی اور تجارتی عمل میں ہر سال ہزاروں کی تعداد میں نکلنے والی اس پیداوار کی کھپت کہیں بھی ممکن نہیں۔ صنعتکار ان سے کوسوں دور بھاگتے ہیں۔
مسلہ حل کیسے ہو؟
ریاست اگر طاقت کے زور پر غیر قانونی مساجد اور مدارس کے خلاف کارروائی کرے گی یا دنیا میں بدنامی کا سبب بننے والے مذہبی قوانین کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے گی تو جتنا بڑا انفراسٹرکچر گزشتہ چالیس سال میں بنا دیا گیا ہے ایسی مذاحمت ہو گی شائد ریاست کا وجود ہی خطرہ میں پڑھ جائے۔ اعتدال پسند معاشرے کی طرف بڑھنا ہے تو راستہ صرف معاشی ترقی سے نکلے گا۔
ریاست کو ایندھن کی ضرورت نہیں رہی ۔ اب مدارس مولوی کی ضرورت ہیں کہ اس کا روزگار اس سے جڑا ہوا ہے۔ مدارس کو ایندھن کی فراہمی بند ہو جائے چند سال میں نتایج ملنا شروع ہو جائیں گے۔
مدارس کی رونقیں غربت، بیروزگاری اور مہنگائی میں چھپی ہیں۔ قبائلی علاقہ جات، اور جنوبی پنجاب کی ساری پٹی مدارس کو 90 فیصد طلبا طالبات فراہم کرتی ہے۔ جنوبی پنجاب میں کارخانے نہیں، روزگار کے مواقع نہیں وہاں غریب والدین بچوں کو تین وقت کی روٹی کے لالچ میں مولوی کے سپرد کر دیتے ہیں۔
خیبرپختونخواہ اور قبائلی علاقہ جات چالیس سال سے جنگ کا میدان بنے ہوئے ہیں۔ یہاں بھی غربت، بے روزگاری کی وجہ سے والدین بچوں کو مدارس کے سپرد کر دیتے ہیں۔
لوگ خوشحال ہو جائیں، روزگار کے مواقع ہوں والدین بچوں کو مدارس نہیں بلکہ انگریزی تعلیمی اداروں میں داخل کرائیں گے۔
چند سال کے اندر مدارس غیر منافع بخش ہو جائیں گے۔
ایک وقت تھا تزویراتی اہداف کیلئے افرادی قوت کا حصول ممکن بنانے کیلئے غربت بےروزگاری ریاست کی ضرورت تھی۔ اسی لئے جنوبی پنجاب، خیبر پختونخواہ اور قبائلی علاقہ جات میں کارخانوں کی بجائے مدارس بنانے پر توجہ دی گئی۔
اب ریاست کو اگے بڑھنے کیلئے مدارس کی بجائے کارخانوں کی ضرورت ہے۔
مدارس اور مساجد کے خلاف کاروائی کی بجائے کارخانے لگائے جائیں۔
روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں۔ مسائل بتدریج حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔
ہمیں زندہ رہنے کیلئے صرف اتنے اسلام کی ضرورت ہے جتنی سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کو ہے۔
ہمیں افغانستان والے اسلام کی ضرورت نہیں جہاں خدائی حکم کی واضح خلاف ورزی خدا کے نام پر ہی مذہب کے ٹھیکیدار کرتے ہیں۔
خدا عورت مرد کی تخصیص کے بغیر حکم دیتا ہے
"پڑھ اپنے رب کے حکم سے"
اسلام کا ٹھیکدار عورتوں کی تعلیم پر پابندی لگا کر کہتا ہے
"نہ پڑھ میرے حکم سے"
واپس کریں