دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
لال مسجد آپریشن اور غازی عبدالرشید
اظہر سید
اظہر سید
لال مسجد آپریشن کی بازگشت دارالحکومت کی فضاؤں میں سنائی دے رہی تھی ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ابھی ناکہ بندی شروع نہیں کی تھی۔مولوی عبدالرشید نے صحافیوں کی ملاقاتیں ممکن تھیں لیکن پہلے فون پر انٹرویو دینا ہوتا تھا پھر مسجد کے اندر جانے کی اجازت ملتی تھی۔ بڑی تعداد میں بچیاں اور کم عمر بچے مسجد میں موجود تھے ۔ہم بلیو ایریا روزنامہ جنگ کے بیورو آفس میں بیٹھتے تھے ۔تقریبا روز ہی لال مسجد جاتے ۔غصے اور جذبات سے بھری طالبات اور بچوں سے بات کرتے۔ہمیں پتہ تھا آپریشن ہونا ہے اور ان بچوں میں سے بیشتر آپریشن کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔
ایک سات سالہ معصوم چہرے والا خوبصورت پختون بچہ ہمیں روزانہ اپنی کالے برقعہ میں ملبوس نقاب پوش بہن کے ساتھ مسجد کے باہر سڑک پر نظر اتا۔
ہم نے ایک روز اسکی بہن کو کہا دو تین روز میں کاروائی شروع ہو جائے گی ۔تم اپنے بھائی کو لے کر واپس بنوں اپنے گھر چلی جاؤ ۔تمہاری واپسی کا سارا بندوبست ہم کر دیتے ہیں۔بچوں کے معصوم زہین کفر اسلام کی جنگ کے نام پر اسقدر آلودہ کر دئے گئے تھے اس بچی نے غصہ سے صاف انکار کر دیا۔
مسجد کے منتظمین ان بچوں اور بچیوں کو ہیومین شیلڈ بنائے ہوئے تھے ۔مولوی عبدالرشید اور مولوی عبد العزیز کو یقین تھا مدرسہ میں بڑی تعداد میں بچے اور بچیوں کی موجودگی میں آپریشن نہیں ہو گا ۔
ہمیں کسی سورس سے پتہ چلا اگلے چوبیس گھنٹے میں آپریشن شروع ہو جائے گا اور چند گھنٹے بعد علاقہ میں نقل و حمل بند کر دی جائے گی ۔
ہم نے اطلاع ملتے ہی مولوی عبدالرشید کو فون کیا اور ملنے کی اجازت چاہی ۔مولوی نے کہا ابھی آجاؤ بعد میں مصروفیت زیادہ ہے۔ہم اگلے دس منٹ میں مولوی صاحب کے سامنے تھے ۔
ہم نے مولوی صاحب سے درخواست کی کہ بنوں کے گل زمان نامی سات سالہ بچے کو چند گھنٹے کیلئے اپنے گھر لیجانا چاہتے ہیں۔اسکی شکل میرے بیٹے سے بہت ملتی ہے ۔اپنے گھر والوں سے ملانا ہے ۔اپ مدرسہ کا کوئی لڑکا ساتھ بھیج دیں دو گھنٹے بعد واپس لے آؤں گا ۔
ہمیں آج بھی یاد ہے مولوی عبدالرشید نے چند سیکنڈ بڑے غور سے ہمیں دیکھا اور پھر صاف انکار کر دیا۔
ہم نے آخر میں مولوی صاحب کو صاف صاف بتا دیا آپریشن شروع ہونے والا ہے یہ بچہ مارا جائے گا ہم اسے بچانا چاہتے ہیں لیکن مولوی صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے الٹا کمرے میں موجود لڑکوں کو کہا اسے باہر چھوڑ او۔
اگلے دن آپریشن شروع ہو گیا۔مولوی رشید مارا گیا۔مولوی عزیز طالبات کے برقعہ میں طالبات کے ساتھ فرار ہوتے پکڑا گیا۔
آپریشن کے دوران انتظامیہ نے بہت ساری بچیوں اور بچوں کو بچ کر نکل جانے کا موقع فراہم کیا ۔ہماری گنتی کے مطابق تین چار سو بچیاں ،بچے،خواتین آپریشن کے دوران محفوظ راستے سے نکل آئیں ۔لیکن گل زمان اور اسکی بہن ہمیں بچ جانے والوں میں نظر نہیں ائے۔
ہم نے بعد ازاں اسلام آباد انڈسٹریل ایریا کے ایک کولڈ سٹوریج کو بھی دیکھا جہاں ڈیڈ باڈیز رکھی گئی تھیں وہاں بھی گل زمان نہیں ملا۔
ہم آج بھی سمجھتے ہیں وہ سات سالہ بچہ اور اسکی بہن اگر آپریشن میں مارے گئے تھے تو اسکا زمہ دار مولوی عبدالرشید اور مولوی عبد العزیز تھے جنہوں نے زیر تعلیم بچوں کو بطور ہیومین شیلڈ استمال کیا ۔
واپس کریں