دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
تیس روپیہ کے چار قتل ۔اظہر سید
اظہر سید
اظہر سید
چاروں نوجوان غربت نے مارے ہیں۔معاشرے میں پھیلی بے بسی اور فرسٹریشن قاتل ہے ۔عوامی وسائل سے اپنی نسلوں کی زندگیاں سنوارنے والے اصل قاتل ہیں۔
تیس روپیہ کے کیلوں پر ہونے والا جھگڑا کبھی دو جوان زندگیاں نہ لیتا اگر معاشرے میں بے بسی اور بے چارگی نہ ہوتی۔مقتولین دولت مند ہوتے ۔پرسکون زندگی گزارنے والوں میں شامل ہوتے کبھی بھی تیس روپیہ کیلئے پھل فروش کے گلے نہ پڑتے ۔وہ اپنی جیب سے اسے اضافی پیسے دے دیتے ۔ہنس کر اسے گدگدی کرتے اور آگے چل پڑتے۔دونوں نوجوان غریب تھے ۔یہ تعلیم یافتہ بھی نہیں تھے ۔یہ جو بھی کام کرتے تھے بہت کم معاوضہ پاتے تھے۔جسم و جان کا رشتہ ہی با مشکل برقرار رہتا تھا ۔
یہ تیس روپیہ کیلئے لڑ پڑے ۔
پھل فروش بھی غریب تھا ۔اسے بھی ریاست نے تعلیم ،صحت اور روزگار کی سہولتیں نہیں دی تھی ۔یہ بھی نوجوان تھا ۔اس کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے تھے ۔یہ بھی بامشکل جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے ہوا تھا۔
یہ امیر ہوتا۔پرسکون زندگی گزار رہا ہوتا کبھی بھی تیس روپیہ کیلئے دونوں بھائیوں سے نہ لڑتا۔یہ لڑنے کی بجائے مسکرا کر انہیں دو تین اضافی کیلئے فری میں دے دیتا۔
پھل فروش نے لڑائی کے دوران مدد کیلئے جن بھائیوں اور عزیزوں کو بلایا وہ بھی بدترین غربت کا شکار تھے ۔بھوکے ننگے غربت کی زندہ تصویریں ۔فرسٹریشن نے انکی زندگیاں بھی اجیرن کر رکھی تھیں۔
ان میں کوئی بھی پر سکون نہیں تھا ۔سب مل کر ڈنڈوں اور کرکٹ کے بیٹ کے ساتھ دونوں بھائیوں پر پل پڑے۔مار مار کر انہیں جان سے ہی مار دیا۔
ویڈیو بنانے والے بھی سارے غریب غربا تھے ۔کسی نے نہیں کہا مت لڑو تیس روپیہ کیلئے میں دے دیتا ہوں۔
وہ بے حس تماشائی بن چکے تھے ۔معاشرتی ناانصافیوں نے انکے دلوں سے بھی محبت نکال کر نفرت بھر دی تھی ۔
یہ سارے زومبیز تھے ۔مرنے والے ۔مارنے والے ،ویڈیو بنانے والے ۔سارے ایک جیسے تھے ۔
دونوں بھائی زخموں سے چور ہو گئے ایک موقع پر مر گیا ۔دوسرا ہسپتال کے بستر پر مر گیا ۔
دو جوان لوگوں کی موت کے بعد ریاست بھی زومبیز بن گئی۔ریاست نے دو قاتلوں کو پولیس مقابلے میں مار دیا ۔
ٹوٹل چار مر گئے ۔فی قتل سات روپیہ تئیس پیسے ۔
مقتولین کی ماں کو دیکھیں کچے گھر میں غربت اور دکھوں کی تصویر ۔اپنے جوان بیٹوں کی موت پر بین کرتی ہوئی ۔
پولیس مقابلے میں مرنے والے نوجوانوں کی ماؤں کو دیکھیں ،کچے گھروں میں غربت اور بے بسی کی تصویریں ۔اپنے جوان بیٹوں کی لاشوں پر بین کرتے ہوئے ۔
یہ ایک جیسی مائیں ہیں ۔یہ ایک جیسے نوجوان ہیں قتل کرنے والے اور قتل ہونے والے ۔
ان نوجوانوں کے یتیم ہو جانے والے بچوں اور بیویوں کی تقدیر اور قسمت بھی یکساں ہیں ۔غربت، اور بے بسی ۔
یہ جب سارے ایک جیسے تھے تو پھر ان نوجوانوں کا قاتل کون ہے ۔
واپس کریں