دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
کارکن لڑتے رہیں۔ اظہر سید
اظہر سید
اظہر سید
مولانا فضل الرحمن پاکستان کی مروجہ سیاسی روایات کے باغی ہیں۔ وہ میرٹ پر پارٹی ٹکٹ دیتے ہیں۔ جمعیت علماء اسلام کے مخلص اور دیرینہ کارکنوں کو مولانا فضل الرحمن نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ مولانا نے ٹیکنوکریٹ کریٹ کی سیٹ پر خیبرپختونخوا کے کسی مخلص اور نیک نام مولانا کی بجاۓ ارب پتی دلاور خان کو اگر ٹکٹ دیا ہے تو جنتی ہونے کی وجہ سے دیا ہے۔ دلاور خان نے جس طرح اپنے اثاثوں اور دولت میں اضافہ کیا ہے وہ کسی گنہگار کے بس کی بات نہیں۔ قبل ازیں بلوچستان میں بھی مولانا ایک ارب پتی جنتی ٹھیکیدار کو ایوان بالا میں لا چکے ہیں۔
مرحوم تاجی کھوکھر کے ہونہار فرزند فرخ کھوکھر کے سر پر دست شفقت رکھنے کی وجہ ہر گز کروڑوں روپیہ کا ہدیہ نہیں ہو سکتا۔ بنیادی وجہ مری میں تبلیغی جماعت والوں کیلئے ایک مسجد کی تعمیر اور تین روز کیلئے کھانا پینا رہائش کی بلامعاوضہ فراہمی ہے۔ اج کے دور میں کون دین کی خدمت کیلئے پیسے خرچ کرتا ہے۔
فرخ کھوکھر پر جہاں تک قتل، قبضہ اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے اور ان گنت مقدمات کا تعلق ہے تو پاکستان کی سیاست میں بڑے لوگوں پر مقدمات معمول کی بات ہے۔ ویسے بھی جب تک جرم عدالتوں میں ثابت نہ ہو جائے کسی کو کریمنل کہنا گناہ کیبرہ میں اتا ہے۔
پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین اور صدر مملکت اصف علی زرداری نے فرحت اللہ بابر اور بیرسٹر مسعود کوثر کی بجائے جے یو ائی کے سابق سینٹر اور کھرب پتی طلحہ محمود کو ٹکٹ دے کر اصل میں انکی دادرسی کی ہے۔ اس مرتبہ مولانا فضل الرحمن نے سینٹر طلحہ محمود کی بجائے زیادہ محبت کا اظہار کرنے والے ارب پتی دلاور خان کو ٹکٹ دیا تو صدر زرداری کے پاس طلحہ محمود کا دل ٹوٹنے سے بچانے کیلئے پارٹی ٹکٹ دینے کے سوا کوئی متبادل نہیں بچا تھا۔
جہاں تک نوسر باز کی طرف سے تیس سال تک مسلسل ساتھ کھڑے رہنے والے پارٹی صدر کی بجائے کھرب پتی مرزا محمد کو سینٹ کا ٹکٹ دینے کا تعلق ہے تو امت مسلمہ کے اس عظیم لیڈر کو مستقبل کی نسلوں کا بھی تو کوئی بندوبست کرنا تھا۔
جہاں تک تحریک انصاف کا مسلم لیگ ن کے ساتھ سینٹ الیکشن کیلئے انتخابی اتحاد ہے تو یہ وقت کی ضرورت تھی۔ اتحاد نہ ہوتا تو دلاور خان، مرزا افریدی اور طلحہ محمود کو صوبائی اسمبلی کے اراکین کو کروڑوں روپیہ زر کثیر دینا پڑتا۔ پارٹی سربراہ خالی ہاتھ رہ جاتے جو غیر اصولی بات ہوتی۔
پیپلز پارٹی، ن لیگ اور تحریک انصاف کے کارکن اور مجاہد پہلے کی طرح ایک دوسرے پر تبرے بھیجتے رہیں ،لڑتے رہیں کہ اسی میں ملک اور قوم کا مفاد ہے۔
واپس کریں