دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسلام زندہ کرنے کی کوشش یا کچھ اور ؟
اظہر سید
اظہر سید
وفاقی دارالحکومت میں پچاس سے زیادہ مساجد سرکاری "اراضی پر ناجائز تعمیر" قراردے دی گئی ہیں۔ایک مسجد کی جگہ واگزار بھی کروا لی گئی ہے ۔اس معاملہ کی اصل حقیقت کیا ہے چند ہفتوں میں کھل جائے گی ۔اگر تو اسلام پر حملہ کے بہانے بڑے بڑے علما اکرام ،مذہبی اور دینی تنظیمیں اور جماعتیں بھر پور احتجاج کرتی نظر آئیں اور یہ احتجاج بڑھتا ہی جائے تو ہم سمجھیں گے جنرل مشرف کے خلاف وکلا تحریک شروع ہو گئی ہے ۔فیلڈ مارشل کو مزید تین سال توسیع دینے کا معاملہ بتدریج مشکل ہوتا جائے گا ۔
مذہب ہمیشہ اس ملک میں بطور ہتھیار استعمال ہوا ہے ۔مذہب کے نام پر دنیا بھر کے مسلمان اکھٹے کر کے سوویت یونین کو روکنے کی امریکی جنگ میں استعمال کئے گئے ۔
مذہب کے نام پر ہزاروں نوجوان کو بطور ایندھن مقبوضہ کشمیر میں جلایا گیا
فیض آباد دھرنہ یا بھٹو کے خلاف نو ستاروں کی تحریک سب میں مذہب استمال ہوا۔
راتوں رات تحریک لبیک نواز شریف کا ووٹ بینک کاٹنے کیلئے بنائی گئی ۔
محترمہ بینظیر بھٹو کے خلاف "عورت کی حکمرانی"کے حوالہ سے فتویٰ بھی سیاست میں مذہب کا استعمال ہی تھا اور کچھ نہیں ۔
ناجائز قابضین سے مساجد کے نام پر ہتھیائی سرکاری اراضی بغیر کسی مذہبی تحریک یا مزاحمت کے واگزار کرا لی گئی تو اس کا واضح مطلب یہ ہو گا ریاست ماضی کے تجربات کی روشنی میں مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی سے رجوع کر چکی ہے ۔اسلام آباد کے چاروں طرف سرکاری اراضی پر قائم مدارس کو بتدریج ختم کرنے میں سنجیدہ ہے تاکہ دارالحکومت کو مستقبل میں مذہبی طبقہ کے گھیراؤ سے محفوظ رکھا جائے۔
جو کچھ بھی ہے آئندہ ہفتوں میں واضح ہو جائے گا
واپس کریں