دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مسنگ بلوچ پرسنز کیلئے احتجاج ۔
اظہر سید
اظہر سید
گزشتہ سال ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے اسلام آباد میں دھرنہ دیا ہم روزانہ اس دھرنہ میں جاتے اور بیٹھتے ۔دو تین مرتبہ اپنے بچوں کو بھی لے کر گئے ۔اصولی طور پر کسی بھی شہری کو جبری لاپتہ نہیں کیا جا سکتا ۔ریاست ہر شہری کے جان و مال کی ضامن ہے ۔جب ریاست کا اپنا وجود چیلنج کر دیا جائے تو کسی کے کوئی انسانی حقوق نہیں ہوتے ۔
یہی اصول ہیں صدیوں سے ۔ جب سے معاشرہ بنا ہے اور رہے گا یہی اصول رہیں گے ۔مزاحمت کرنے والے کرتے رہیں یہ انکا فطری حق ہے ۔ازادی کی جنگ لڑتے رہیں یہ بھی انکا فطری حق ہے ۔
جب بندوق اٹھا لی تو انسانی حقوق والا حق ختم ہو گیا ۔ریاست اپنے تحفظ کیلئے وہ سب کچھ کرے گی جو ہر ریاست کرتی ہے اور کرتی رہے گی ۔
مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک تھی ۔پاکستان کشمیریوں کی مدد کرتا تھا ۔بھارتی ریاست کشمیریوں کو مارتی تھی ۔لاپتہ کرتی تھی ۔کوئی بھارتی عدالت مقبوضہ کشمیر میں متعارف کروائے خصوصی قوانین کے خلاف کسی کشمیری کو شنوائی نہیں دیتی تھی ۔
امریکیوں نے امریکہ کے تحفظ کے نام پر گوانتانامو میں غیر انسانی قید خانہ بنائے ۔خصوصی قوانین بنائے کسی امریکی عدالت نے کبھی کسی قیدی کو شنوائی نہیں دی ۔
برطانیہ اور امریکہ کی افواج نے عراق میں ہزاروں عراقیوں کو لاپتہ کیا ،قتل کئے ،غیر انسانی سلوک کیا کسی کے کانوں پر جوں نہیں رینگی ۔
بلوچستان میں بھارتی وہی کچھ کر رہے ہیں جو پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں کرتے تھے ۔بھارتیوں نے ریاست کے تحفظ کیلئے سب کچھ کیا تو پاکستان بھی سب کچھ کرے گا ۔
جب تک ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ پاکستانی شہری کے طور پر اپنے حق کیلئے جدو جہد کرتی رہی ہر سچے پاکستانی کیلئے قابل احترام رہی ۔
جس دن ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جعفر ایکسپریس کے سانحہ میں مارے جانے والے عسکریت پسندوں کی لاشیں سول ہسپتال سے چھین کر احتجاج کیلئے نکلی وہ پاکستانی نہیں رہی پاکستان دشمن قوتوں کی پراکسی بن گئی تھی ۔۔
ایمان مزاری اگر مسنگ بلوچوں کے احتجاج کیلئے بلوچ خواتین کے ساتھ اظہار یک جہتی کرتی ہے بطور وکیل اور سول سوسائٹی کے اجتماعی ضمیر کے طور پر قابل تحسین ہے ۔
امریکہ اور یورپ میں بھی سول سوسائٹی عراق،افغانستان اور اب غزہ میں اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج کرتی ہے ۔
سول سوسائٹی اپنا کام کرے ریاست اپنا کام کرتی ہے ۔
بلوچ جب آزادی حاصل کر لیں تو انسانی حقوقِ کے مطالبات منوا لیں ۔بندوق بھی اٹھائیں اور حقوق بھی مانگیں یہ کام اکھٹے کبھی بھی نہیں ہوتے ۔جب اتنی طاقت حاصل کرلیں ریاست مطالبات ماننے پر مجبور ہو جائے وہ الگ بات ہے ۔
بلوچستان میں نوجوان ایندھن بن رہے ہیں ۔چین پاکستان مخالف قوتیں اپنے مفادات کے تنور میں انہیں جلا رہی ہیں ۔انہیں کچھ نہیں ملے گا ۔ہزاروں پاکستانی افغانستان اور مقبوضہ کشمیر کے تنور میں بطور ایندھن جلائے گئے انہیں موت کے سوا کچھ نہیں ملا ۔
بلوچ نوجوانوں کو بھارتی اپنے مفادات کے تنور میں جلا رہے ہیں انہیں بھی موت کے سوا کچھ نہیں ملے گا ۔
واپس کریں