دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
زندگی کیا ہے ۔اظہر سید
اظہر سید
اظہر سید
ٹیلی پیتھی ایک حقیقت ہے کیا ۔کتابی باتیں نہیں ہم صرف اپنا ذاتی
تجربہ بیان کرتے ہیں ۔فرسٹ ائر کالج میں داخلہ لیا ٹیلی پیتھی اور یوگا کی کتابیں پڑھنا شروع کیں ،یوگا کی مشقیں کیں اور ٹیلی پیتھی کی بھی ۔صبح سورج نکلنے کے وقت شمال کی طرف چہرہ کر کے کھڑے ہو کر مراقبہ کی کیفیت ۔
ایک روز گھر کے پچھلے صحن میں ٹیلی پیتھی کی مشق میں مصروف تھے ،انکھیں بند تھیں ۔دیکھا مرحوم والد صاحب اپنے بیڈ روم سے کچن میں آئے ،پانی پیا،کچن کا دروازہ کھولا ،ہمارے پیچھے ان کھڑے مسکرانے لگے ۔ہم نے مراقبہ چھوڑا آنکھیں کھول کر پیچھے دیکھا والد صاحب کھڑے مسکرا رہے تھے اور ہم نے بیڈ روم سے نکل کر اپنے پیچھے ان کھڑے ہونے کا سارا منظر بند آنکھوں سے دیکھ لیا تھا ۔ ہمیں اس دن سے آج تک یقیں ہیں جادو،ٹیلی پیتھی یا پامسٹری سارے علوم سچے ہیں ،اچھا استاد مل جائے ان علوم پر دسترس ممکن ہے ۔
شعور ،جبلت ،محبت سب حقیقت ہے ۔بچے کو سینکڑوں میل دور تکلیف پہنچے ممتا کو یا بے پناہ محبت کرنے والے کو گڑ بڑ کا احساس ہو جاتا ہے۔ نیند کی حالت میں خواب انسانی شعور کی ایک دلیل ہے سوچ ،شعور یا دماغ میں چلنے والی صلاحیت وقت میں سفر کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ماضی میں بھی سفر ہوتا ہے مستقبل میں بھی ۔
جاگتی آنکھوں سے بھی خاص لمحات میں مستقل دیکھا جا سکتا ہے ۔نیند کی حالت میں خواب کی صورت بھی مستقبل مجسم ہو کر سامنے آسکتا ہے ۔یہی حال ماضی کا بھی ہے ۔
زرتشت مذہب کا بانی ان پڑھ تھا لیکن اس نے عظیم طوفان ،نیکی اور بدی کا خدا ،وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ہزاروں سال پہلے کسی مذہب کی صورت موجود تھا ۔نئے مذہب کی بنیاد رکھ دی جس میں پانچ وقت عبادت بھی تھی ۔
ہندوؤں کی رامائن کے بعض حصے آج بھی انسانی شعور کی دلیل ہیں ۔
مستقبل کی تصویر کشی کرنے والے بعض دفعہ سو فیصد درست تصویر کشی کر جاتے ہیں ۔ دنیا میں سینکڑوں مثالیں موجود ہیں ۔
جس کو فطرت کی طرف سے جتنی زیادہ صلاحیت ملتی ہے وہ اتنا زیادہ انسانی آبادیوں پر اثر رسوخ حاصل کرتا ہے ۔
شاعر ہو ،نئے مذہب کی بنیاد رکھے یا مستقبل کی تصویر کشی کرے
غالب نے یہی فلسفہ بیان کیا تھا
"آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے"
"نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا"
"اصل شہود شاہد مشہود ایک ہیں
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں"
"زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہی اجزاء کا پریشاں ہونا"
ہوا پانی آگ مٹی یہی چار چیزیں ہیں ۔انسانی شعور اضافی ہے ۔فرق موت نہیں روح ہے ۔جسم میں مجسم ہوئی،شعور بنی ۔موت آئی جسم مٹی ،پانی،اگ اور ہوا میں تبدیل ہوا لیکن روح اور شعور زمان و مکاں میں پھیل گیا ۔
"سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہونگی کہ پنہاں ہو گئیں"
صورتیں خاک ہو جاتی ہیں شعور ،اچھائی ،نیکی زندہ رہتی ہے ۔اچھے انسانوں لالہ و گل کی صورت دوبارہ آجاتی ہے ۔یہی حالت برے انسانوں،برے شعور،بری فطرت کی ہے ۔یہ بھی وقت میں سفر کرتی ہیں۔یہ بھی پلٹ کر آتی ہیں ۔
اچھائی برائی ،شیطان اور رحمٰن کا یہ سفر ختم نہیں ہوتا جاری رہتا ہے ہمیشہ ۔جاری رہے گا ہمیشہ ۔
قیامت پہلے نہیں آئی اس لئے کسی انسانی شعور نے یہ نہیں بتایا ۔
مرنے کے بعد جسم کا عناصر میں تبدیل ہونا ،اس مٹی سے سبزہ و گل پیدا ہونا،اس سبزہ و گل کا خوارک کا حصہ بننا اور پھر اس خوراک سے دوبارہ زندگی کا جنم لیا یہی سفر ہے جس سے بار بار زندگی گزرتی ہے
واپس کریں