دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
ظلم کی ایک کہانی۔ اظہر سید
اظہر سید
اظہر سید
پشاور کا 24 سالہ نوجوان عبدالوہاب باربی کیو کا ٹھیلہ لگاتا تھا۔ بلاسفیمی بزنس گروپ کے حسن معاویہ کی سیدہ مخدومہ نام کی ائی ڈی نے اسے ایک گروپ میں شامل کیا گیا۔بات چیت شروع ہوئی۔ کاروبار کرانے کا جھانسا دیا۔ ایک دن گروپ میں توہینِ امیز مواد شئیر ہوا۔ عبدالوہاب نے مخدومہ سے بات کی یہ کیا چیز شئیر ہوئی ہے۔
مخدومہ نے حیرت کا اظہار کیا اور سکرین شاٹ بھیجنے کو کہا۔ عبدالوہاب کو سکرین شاٹ بھی لینے نہیں اتے تھے۔ مخدومہ نے طریقہ بتایا۔ عبدالوہاب نے سکرین شاٹ بھیج دئے۔
چند دنوں کے بعد مخدومہ نے کہا تمہارے کاروبار کا بندوبست ہو گیا ہے۔ پارٹنر شپ ہو گی۔ ماہانہ پانچ دس لاکھ روپیہ اسانی سے کما لو گے لیکن کام ایمانداری سے کرنا۔عبدالوہاب کو لاہور گلبرگ انے کیلئے کہا۔ روشن مستقبل کی خواب انکھوں میں چھپائے عبدالوہاب نیازی اڈے سے رائڈ بک کروا کر گلبرگ پہنچا۔ اگے مخدومہ کی بجاۓ ایف آئی اے کی ٹیم کھڑی تھی ۔
عبدالوہاب کو بلاسفیمی کے کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔
والد اور چچا زاد بھائی پہنچے۔ پتہ چلا سنگین جرم میں پکڑا گیا ہے۔
گروپ میں 25 اور لوگ بھی ہیں ابھی انہیں بھی پکڑنا ہے۔
عبدالوہاب کے بھائی کے بقول انوسٹیگیش افسر نوید اسلم نے کسی درمیانی بندے کے زریعے پہلے پانچ لاکھ مانگے۔ پھر ساڑھے تین لاکھ پر بات ڈن ہوئی۔
پیسے دینے سے پہلے وہ ایف آئی اے کے دفتر گئے تو پتہ چلا عبدالوہاب کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔
انہوں نے انسپکٹر سے گلہ کیا ہمارہ بندہ تو جیل بھیج دیا ہے پیسے کس چیز کے مانگ رہے تھے۔ انسپکٹر نے معذرت کی کسی ریڈ پر تھا پیچھے بڑے افسر نے چالان کاٹ کر جیل بھیج دیا۔
عبدالوہاب کے گھر والے اتنے غریب ہیں وکیل بھی نہیں کر سکتے۔ اس وقت عبدالوہاب کا کوئی وکیل نہیں سرکاری وکیل اس کا کیس دیکھے گا۔
بیشتر ملزمان کے ساتھ یہی معاملہ ہے غربت کی وجہ سے وکیل نہیں کر سکتے۔ مقابلے میں طاقتور بلاسفیمی گروپ، ایف آئی اے کے اہلکار اور سنگین جرم ہے۔ عبدالوہاب اس وقت کیمپ جیل لاہور میں بےبس اپنی قسمت کا منتظر ہے۔
واپس کریں