اظہر سید
سولہ اپریل 2024 کو بلاسفیمی کا ملزم پاکستان میں لینڈ کرتا ہے ۔دس گھنٹے بعد بلاسفیمی کے الزام میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔ملزم بیرون ملک سے آیا تھا ۔وہاں مزدوری کرتا تھا ۔جیب میں تین ماہ کی تنخواہ کا روکڑا تھا ۔دس گھنٹے کے اندر کمپلینٹ ہوتی ہے ۔اسی دس گھنٹے میں انوسٹیگیشن ہوتی ہے ۔اسی دس گھنٹے میں ایف آئی آر درج ہوتی ہے اور انہی دس گھنٹے میں ملزم گرفتار کر لیا جاتا ہے ۔عدالت حیران یہ کیسے ممکن ہے ۔وکیل جناب ایسا ہی ہے ۔
دو مارچ 2023 کو ایک اور کیس میں بلاسفیمی کا ایک ملزم دن بارہ بجے گرفتار ہوتا ہے ۔بٹنوں والا نوکیا برآمد کیا جاتا ہے ۔یعنی اس غریب نوجوان کے فون میں انٹرنیٹ چل ہی نہیں سکتا ۔انوسٹیگیشن افسر نے چالان میں لکھا ملزم نے آئی او کو پاسورڈ اور یوزر نیم دیا جو کسی اور کے نام پر تھا ۔عدالت "یہ تو سیدھا سیدھا پلانٹڈ ریکوری کا کیس ہے"ملزم کو جہلم میں گھر چھاپہ مار کر گرفتار کیا گیا ہے ۔چار گھنٹے جہلم جانے ،چار گھنٹے آنے ،ایف آئی آر کے اندراج کے قانونی تقاضے پوری کرنے ،ملزم کا گھر تلاش کرنے میں بھی کافی وقت درکار ہے لیکن حیران کن طور پر یہ سارا عمل گیارہ گھنٹے میں مکمل ہو گیا ۔عدالت حیران پریشان یہ کیسے ممکن ہے ۔
بدمعاشی یہ ہے کہ بٹنوں والے فون میں انٹرنیٹ چل ہی نہیں سکتا اور فیس بک آئی ڈی ریکور ہو ہی نہیں سکتی جس میں توہین آمیز مواد شئیر ہوا تھا ۔دس گھنٹے میں کمپلینٹ درج ہوئی ،انوسٹیگیشن بھی مکمل ہو گئی،ایف آئی آر بھی درج ہو گئی اور جہلم جا کر ملزم گرفتار بھی ہو گیا ۔یہ سن کر جسٹس اعجاز اسحاق کے چہرے پر دکھ اور تکلیف کے واضح آثار نظر آنے لگے ۔
ایک اور کیس میں راؤ عبد الرحیم نے ایک بلاسفیمی کے ملزم کو اس طرح پکڑا کہ اسپین والے نمبر پر "عبداللہ قتل کیس والا"غلطی سے ایک لنک کلک کر لیا اور ایک گروپ کا ممبر بن گیا جس میں دیکھا توہین آمیز مواد شئیر ہو رہا ہے ۔اس کیس میں راؤ عبد الرحیم بسمہ بنے ہوئے ہیں جبکہ ایک اور کیس میں اقرا بنے ہوئے ہیں ۔
جج صاحب نے سر پر ہاتھ رکھ کر سر جھکا لیا ۔
واپس کریں