دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اسلام آباد میں جی ایچ کیو ۔ اظہر سید
اظہر سید
اظہر سید
منصوبہ بندی کیلئے درکار شاندار انفراسٹرکچر کی موجودگی میں حیرت ہوتی ہے کاریگروں نے سوچا تک نہیں راجہ بازار کی تنگ گلیوں ایسی صورتحال میں چند سال بعد جب جی ایچ کیو آپریشنل ہو جائے گا نقل و حمل کیسے ہو گی ۔ایک مارگلہ روڈ ہے اور یہاں صرف نانتھ ایونیو کا اختتام بحریہ ،ائر اور این ڈی یو ایسی شاندار جامعات کی وجہ سے دونوں پچھلے اور اگلے سگنل پر ہر روز ٹریفک جام ہوتی ہے ۔
جو شاندار داخلہ گیٹ جی ایچ کیو کا ہے اس کیلئے ایف ٹن کی مرکزی سڑک سے سیدھا راستہ ہے اور یہاں ہر روز سرشام ٹریفک جام ہوتی ہے بعض مرتبہ پیچھے جی نائن اور جی ٹن کی درمیانہ شاہراہ پر بھی گاڑیوں کی طویل قطاریں ہوتی ہیں اور دیگر زیلی سڑکیں بھی چوک ہو جاتی ہیں۔ ہمیں خوف آتا ہے جب جی ایچ کیو آپریشنل ہو جائے گا فوج کی اعلی قیادت کس طرح روز دفتر آنا جانا کرے گی کہ ایس او پی پر عمل کیا گیا تو ہر افسر کی آمد و رفت محفوظ بنانے کیلئے سات سے دس بجے تک سڑکیں بند رکھنا پڑیں گی ۔
ہیلی کاپٹر سے آمد ر فتح کیلئے بھی کسی مخصوص جگہ ہیلی پیڈ بنانا پڑے گا یا پھر ہر افسر کے گھر کی چھت پر ہیلی کاپٹر پارکنگ کا بندوبست کرنا ہو گا ۔
ایک حل ممکن ہے ایف ٹن،ایف الیون ،ڈی 12 اور ای الیون سویلین سے خالی کرا لیا جائے اور یہاں صرف جی ایچ کیو میں کام کرنے والوں کو رہائش دی جائے ۔قوم اپنی فوج سے محبت کرتی ہے قربانی دینے پر تیار ہو جائے گی ۔
دارالحکومت کو کنکریٹ کا منظر نامی بنانے والے کاریگر بلیو ایریا کو بھی بڑھا چکے ہیں اور یہ خیبر پلازہ سے سفر کرتا ہوا ایف ٹن میکڈونلڈ کے سامنے پہنچنے کو ہے ۔سڑکیں وہی ہیں عمارتیں بنتی ہی جا رہی ہیں ۔ایک پلازہ اگر سو کاریں لے کر آئے گا تو اندازہ لگا لیں ایف ٹن سے خیبر پلازہ تک نیا بلیو ایریا کیا قیامت ڈھائے گا ۔
نئے جی ایچ کیو تک پہنچنے کیلئے انسانوں کے جنگل سے گزر کر آنا پڑے گا ،ہر روز ہزاروں گاڑیوں ان سیکٹرز کے درمیان گزرتی ہیں جی ایچ کیو آپریشنل ہونے کے بعد کاروں کی تعداد سو گنا بڑھ جائے گی پھر کیا کریں گے ؟
پہلی بات تو یہ ہے دنیا کی کسی ریاست میں جی ایچ کیو دارالحکومت کے اندر موجود نہیں ۔ علامتی دفاتر موجود ہیں بھی تو وہ علامتی ہیں بہت بڑا انفراسٹرکچر موجود نہیں ۔
مسلہ حل ہو سکتا ہے دارالحکومت کے مرکزی سیکٹرز سویلین سے لے لئے جائیں اور مارگلہ کے دامن کا تمام علاقہ جی ایچ کیو قرار دے دیا جائے ۔
جی ایچ کیو تک پہنچنے کیلئے مارگلہ کی بیک یعنی ہری پور اور ٹیکسلا کی طرف سے نئی شاہراہوں کی منصوبہ بندی کی جائے ۔افسران کی رہائش کیلئے جی ایچ کیو میں آگے کی طرف اضافہ کر کے الگ سیکٹر بنایا جائے ۔جی ایچ کیو کے مرکزی گیٹ تک پہنچنے کیلئے اوور ہیڈ میٹرو کی طرز پر نئی شاہراہ بنائی جائے جس پر سویلین گاڑی سفر نہ کرے ۔
جی ایچ کیو کے آرکٹیکٹ صرف ایک ہفتہ تک صبح اور شام کے اوقات میں مارگلہ روز ،نانتھ ایونیو ،سیونتھ ایونیو ،ایف ٹن میکڈونلڈ کے سامنے گول چکر پر ٹریفک کی صورتحال کا جائزہ لیں اور جی ایچ کیو آپریشنل ہونے کے بعد اضافہ ہونے والی مستقبل کی ٹریفک کو منصوبہ بندی میں شامل کریں تو معاملہ حل ہو سکتا ہے ۔
پاکستان کی فوج اور ایٹمی اثاثے ملک دشمن قوتوں کا ہدف ہیں ۔ہم نے مستقبل کی فوجی قیادت کے تحفظ کیلئے ابھی سے منصوبہ بندی نہ کی تو پاکستان کو عراق شام اور لیبیا بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا ۔فوج ہے تو ملک سلامت ہے اور ہم چین کی نیند سوتے ہیں ۔ٹریفک سے بھری سڑکوں پر سفر کرنے سے ملک دشمن قوتیں افراتفری پیدا کرنے کی سازش کر سکتی ہیں ۔ہمیں فوج کے پیچھے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑا ہونا ہو گا ۔پاکستان کے تحفظ کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے والوں کی محفوظ زندگی کیلئے ہمیں ہر وہ کام کرنا ہو گا جو زندہ قوموں کا طرہ امتیاز ہے ۔
پاکستان زندہ باد
واپس کریں