اظہر سید
میثاق جمہوریت سے پہلے سیاستدان صدر سے اسمبلیاں توڑنے کا اختیار 58 بی ٹو واپس لے کر بغاوت کی ابتدا کر چکے تھے ۔ میثاق جمہوریت پر دستخط اصل میں مالکوں سے ریاست کی داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کی ملکیت واپس لینے کی دوسری کوشش تھی ۔مالکان جو جنرل ایوب سے جنرل مشرف تک تین دہائیوں سے زیادہ کی ریاستی ملکیت سے انتہائی تجربہ کار اور جہاندیدہ ہو چکے تھے انہوں نے فوری طور پر نوسر باز کی صورت میں حفاظتی انتظامات شروع کر دئے ۔
نوسر باز صرف جنرل پاشا کی تخلیق نہیں تھی بلکہ مالکوں کا مشترکہ اثاثہ تھا جس میں جنرل مشرف سے ،جنرل کیانی،جنرل راحیل اور جنرل باجوہ کی قیادت میں جنرل ظہیر الاسلام اور جنرل فیض تک ایجنسی نے اپنا کردار ادا کیا ۔
ایجنسی کا نیا فخر پرانے فخر نواز شریف سے مختلف ہی نہیں بلکہ نوسر باز بھی تھا ۔مالکوں نے اس پر داؤ لگا کر اس لحاظ سے ملک دشمنی کی خیبر پختونخوا میں پانچ سالہ حکومتی پالنے میں اس پوت کے پاؤں نظر آگئے تھے یہ ہیرو نہیں صرف فراڈ ہے لیکن پھر بھی اس پر داؤ لگا دیا اور اب سارے بھگت رہے ہیں ۔
ہم سمجھتے ہیں اگر مالکوں نے ریاستی ملکیت پر گرفت پہلے کی طرح برقرار رکھنے کی کوشش کی موجودہ الیکشن پاکستان کے آخری الیکشن ہونگے ۔
اب ہارنے کیلئے کچھ بھی موجود نہیں ۔سی پیک پر چینی سرمایہ کاری بحال ہو گئی بچ نکلنے کے امکانات ہیں ورنہ معاشی مسائل اس قدر زیادہ اور زمینی حقائق اس قدر متنوع ہیں نواز شریف کو فری ہینڈ نہ ملا سب خالی ہاتھ رہ جائیں گے ۔
ہم سمجھتے ہیں مالکان کے ہاتھ سے داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کی ملکیت واپس لینے کے علاؤہ کوئی راستہ موجود نہیں ۔
اب پہلے کی طرح دو تین سال کے اندر پالتو ججوں اور کسی نئے گھوڑے پر داؤ لگا کر دھرنوں کے زریعے حکومت فارغ کرنے یا مفلوج کرنے کا وقت گزر چکا ہے ۔
رائے عامہ راتوں رات نہیں بنتی طویل عرصہ سے جاری پالیسوں کے تسلسل کے ردعمل سے رائے عامہ بنتی ہے ۔مالکوں کے کارپوریٹ مفادات کی وجہ سے ریاست کی مختلف پاکٹس میں ایک رائے عامہ بتدریج موجود تھی ۔سرکاری اداروں میں مداخلت اور سیاسی امور میں داؤ پیچ کا نشانہ پہلے ملک کی دونوں بڑی جماعتیں پیپلز پارٹی اور ن لیگ تھیں ۔ کراچی میں الطاف حسین کا جو جن بوتل سے نکالا تھا اس نے بھی بے شمار مخالفانہ پاکٹس پیدا کر دیں ۔
بلوچ پالیسی اور نقیب اللہ محسود کے قتل کی کوکھ سے جنم لینے والی پختون تحفظ موومنٹ نے بھی رائے عامہ کا بڑا حصہ ہموار کیا ۔
ہاتھی کی کمر پر آخری تنکہ نوسر باز نے سائفر اور امریکی سازش کے زریعے اس طرح رکھا گویا "اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے"
جنرل باجوہ نے نوسر باز کو پالتو ججوں کے زریعے ریلیف دینے کی پالیسی کے زریعے دو کشتیوں کی سواری کی ۔ایک طرف پی ڈی ایم مخلوط حکومت کو اپنی غلطیوں کا بوجھ منتقل کیا دوسری طرف نوسر باز کو بھی کھلے عام اعلی فوجی قیادت کو میر جعفر ،میر صادق اور ہم کوئی غلام ہیں کے زریعے لچ تلنے کی مکمل آزادی دئے رکھی ۔
نوسر باز نو مئی کا بلنڈر نہ کرتا مالکوں کی دو کشتیوں کی سواری جاری رہتی ۔اب بھلے مالکوں میں نوسر باز سے چھٹکارے کے متعلق مکمل ہم آہنگی ہے جو نقصان ہونا تھا ہو چکا ہے ۔رائے عامہ ہموار ہو چکی ہے اور مالکوں کی نئی حکومت کو زچ کرنے کی صلاحیت ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بن گئی ہے ۔
الیکشن کے بعد نئی حکومت کا آزادانہ کام کرنے سے روکنے کی کوشش کی تو کسی کے پلے کچھ نہیں رہے گا اور ریاست بچانے کیلئے نئی حکومت کو آزادانہ کام کرنے دیا گیا تو مالکوں سے خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کی ملکیت چھن جائے گی دوسرا کوئی راستہ موجود نہیں ۔
نواز شریف کے بعد بلاول بھٹو پر داؤ لگایا تو حالات کا جبر اور مالکوں کی ریت کی طرح پھسلتی گرفت پیپلز پارٹی کو بھی اسی راستے پر لے آئے گی جو "ووٹ کو عزت دو" کا راستہ ہے ۔
واپس کریں