اظہر سید
سابق ڈی جی آئی کے کورٹ مارشل کے بعد ارشد شریف کے قتل کی گھٹیاں بھی سلجھا لینی چاہیں ۔اس قتل کا بوجھ فوج کو اس لحاظ سے اٹھانا پڑا تھا پی ٹی آئی سوشل میڈیا نے باقاعدہ ایک منظم مہم کے زریعے ارشد شریف کے قتل کا الزام فوج پر عائد کیا تھا۔
ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات اگر ہو گئیں تو یہ ایک آئیس برگ کی گہرائی کی تحقیقات بھی ہو نگی ۔
بعض دفعہ بہت سارے مقتول ادارے پر بوجھ بن جاتے ہیں لیکن ان مقتولین کی روانگی سے ادارے کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔بعض کردار اداروں میں بیٹھ کر خود سے فیصلے کرتے ہیں۔بظاہر اداروں پر احسان بھی کرتے ہیں لیکن اصل میں اپنے کرتوتوں پر پردہ ڈالتے ہیں۔
جنرل مشرف کے خلاف وکلا تحریک کبھی بھی اس سطح پر نہیں پہنچ سکتی تھی فوجی صدر مواخذہ کی تلوار تلے پہنچا دیا جائے اور جان بچانے کیلئے استعفیٰ دے کر بھاگ نکلے اگر پیچھے خود ادارے کے اندر ادارہ یا ریاست کے اندر ریاست نہ ہو۔
کیا یہ ممکن ہے کوئی ارشد شریف اور کوئی اے آر وائی فیلڈ مارشل عاصم منیر کے خلاف اوپر تلے پرائم ٹائم میں پروگرام کرے ؟ نہیں ممکن
ایسا صرف اس وقت ممکن ہو سکتا ہے اگر اینکر ارشد شریف ہو اور پیچھے جنرل فیض کی باقیات ہوں ۔
ادارہ جب کسی پلان پر عمل کرتا ہے تو مشین کے کل پرزے عمل کرتے ہیں ۔چیف کبھی بھی براہ راست سیاسی جوڑ توڑ ،پارلیمنٹ یا میڈیا کنٹرول نہیں کرتا ۔یہ مشین کے پرزے کرتے ہیں۔زمہ دار متعلقہ انچارج ہوتا ہے چیف نہیں ۔
طاقتور فوج کے سابق چیف کو ایک جج نے آئین کی خلاف ورزی کا مجرم قرار دے کر لاش کو ڈی چوک پھانسی دینے کا فیصلہ سنایا۔
یہ وقار سیٹھ کرونا کا شکار ہو گیا۔قدرت نے اسے اٹھا لیا۔اپنے سابق چیف کی توہین پر چین آف کمانڈ میں جو غصہ اور اضطراب تھا جج کی روانگی کے خدائی فیصلے پر یہ غصہ اور اضطراب ختم ہو گیا۔سب رب کے فیصلے پر راضی تھے ۔
تحریک لبیک کے سربراہ نے دھمکی دی "بتا دوں گا فیض آباد کس نے بٹھایا"
قدرت کا انصاف حرکت میں آیا تحریک لبیک کا سربراہ کرونا کا شکار ہو کر جنت کے سفر پر روانہ ہو گیا ۔
ارشد شریف نے حاضر سروس آرمی چیف کو نشانہ بنایا تھا۔ائین شکنی کا ملزم قرار دیا تھا۔
فوج اپنے چیف کی توہین کبھی برداشت نہیں کرتی ۔اس سے پہلے ارشد شریف سے پوچھا جاتا آرمی کے چیف کے خلاف پروگرام کس کے اشارے پر کیا ۔قدرت کا نظام حرکت میں آیا اور ارشد شریف کو پشاور ائر پورٹ کے زریعے ملک سے بھگا دیا گیا ۔
خلیجی ملک میں جب ارشد شریف ایسے اثاثے سے رابطہ کیا گیا ۔واپسی کی پیشکش کی گئی اور ارشد شریف وطن واپسی پر راضی بھی ہو گیا ۔قدرت کا نظام پھر حرکت میں آیا ۔اس سے پہلے ارشد شریف وطن واپس آکر زبان کھولتا اسے افریقی ملک بھگا دیا گیا اور وہاں وہ خدائی فیصلے کی وجہ سے مارا گیا ۔
فرق صرف اتنا ہے مولوی خادم حسین کرونا سے مرا اور ارشد شریف پولیس کی گولیوں سے جنت کے سفر کی طرف روانہ ہوا ۔دونوں زبان نہیں کھول سکے ۔
ارشد شریف فوجی اینکر تھا۔یہ فوج یا اس کے چیف کے خلاف جا ہی نہیں سکتا تھا اگر اس کے پیچھے وکلا تحریک ایسے پاسباں نہ ہوتے ۔
صابر شاکر پول کھول سکتا تھا اسے پہلے ہی بھگا دیا گیا۔
اے آر وائی کے ڈائریکٹر کنٹرولر کو پکڑا گیا لیکن وہ معاملہ سے بے خبر تھا۔
ایک کردار باقی ہے جو بتا سکتا ہے ارشد شریف کو آرمی چیف کے خلاف پروگرام کرنے کا کس نے کہا تھا یا ارشد شریف نے کیا بتا کر جنرل باجوہ کے خلاف پروگرام کیا تھا ۔یہ کردار اے آر وائی کا مالک ہے ۔پی ایس ایل میں کراچی کرکٹ ٹیم کا مالک معاملات درست کر چکا ہے ۔اگر آئیس برگ کی گہرائی ناپنی ہے تو ارشد شریف کے قتل کا معاملہ کھول لیا جائے ۔
واپس کریں