اظہر سید
ہم فوج کی جمہوریت میں مداخلت کے سب سے بڑے ناقد ہیں ۔جنہوں نے عوام کیلئے جموریت لانا تھی وہ نوسر باز کے خلاف تحریک عدم اعتماد کا حصہ بن کر جمہوریت لانے کا سنہری موقع کھو چکے ہیں ۔دوسرے لفظوں میں ساحل پر پہنچ کر ڈوب گئے ہیں۔
جب زمہ دار ہی جان بوجھ کر ڈوب گئے تو جمہوریت اور عوام گئے تیل لینے ،اب فوج کی مکمل اور بھر پور حمائت ہی حب الوطنی ہے کہ دنیا بہت تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے ۔ دنیا کے فیصلے جمہوریت کے ہاتھوں سے نکل کر جنرلوں کے ہاتھوں میں چلے گئے ہیں اور یہ امریکی سربراہی میں جمہوریت کا چہرے بنے مغربی ممالک میں ہو رہا ہے ۔
پاکستان میں جمہوریت یا نوسر باز کی محبت میں جب فوج پر تنقید ہوتی ہے ڈھاکہ فال اور کارگل کا طعنہ دیا جاتا ہے ۔
ڈھاکہ اور کارگل میں موت کی آنکھوں میں ڈال کر نقد جانیں وارنے والے اس دھرتی کے بیٹے تھے جو پختون،پنجابی،بلوچ ،کشمیری اور سندھی تھے ۔یہ ہمارے بھائی اور بیٹے تھے ۔جب ہم شکست کا طعنہ دیتے ہیں خود کا تعارف ملک دشمن اور غلیظ شہری کے طور پر کراتے ہیں اور اپنے ہی ملک کی فوجی جوانوں کی توہین کرتے ہیں ۔
مشرقی پاکستان میں پوری بنگالی قوم مخالف ہو چکی تھی ۔
فوج کی بنگال رجمنٹ باغی ہو چکی تھی ۔نیوی اور ائر فورس میں بنگالی افسران اور جوان بے پناہ نقصان پہنچا رہے تھے ۔
مشرقی پاکستان میں چالیس ہزار جوان افسران تھے جبکہ مخالف ابادی دس کروڑ سے زیادہ تھی۔
مشکلات اور نامساعد حالات کے باوجود فوجی آپریشن کے زریعے مشرقی پاکستان میں بغاوت ختم کر دی گئی تھی ۔پورے مشرقی پاکستان میں سناٹا چھا گیا تھا۔
بھارتی حملہ نہ کرتے مشرقی پاکستان آج بھی پاکستان کا حصہ ہوتا۔
چالیس ہزار فوج ،مخالف مقامی ابادی اور دشمن کا پوری طاقت سے حملہ ۔۔۔ دنیا کی کوئی فوج یہاں مقابلہ نہیں کر سکتی تھی ۔
اس بات پر بحث ہو سکتی ہے کمانڈر جان بچانے کی بجائے شہادت کا فیصلہ کرتے سب شہید ہو جاتے ہتھیار نہ ڈالتے ۔اس بات پر بحث ممکن نہیں کہ لڑائی کیوں نہیں جیتی ۔یہ لڑائی جیتنا ممکن ہی نہیں تھا ۔
دوسرا طعنہ کارگل کا ہے ۔طعنہ جنرل مشرف اور اس کے ساتھی جنرلوں کو دیا جا جاسکتا ہے جنہوں نے کارگل کا فیصلہ کیا ۔جوانوں اور افسروں کو طعنہ دینا غلاظت ہے اور کچھ نہیں۔
جوان اور افسران نے اپنی جانیں بہادرانہ قربان کیں ۔ناکامی غلط فیصلوں کی تھی لڑنے والے جوانوں اور افسروں کی نہیں ۔
یہ لڑائی بھی یکطرفہ تھی ۔ریاستی پالیسی یہ تھی مجاہدین نے قبضہ کیا ہے ۔چونکہ ریاستی پالیسی ہی غلط تھی اس لئے ناکامی ہونا ہی تھی ۔
مجاہدین تھے اس لئے انہیں لڑاکا جیٹ طیاروں یا دور مار توپوں یا ہیلی کاپٹر کی مدد بھی حاصل نہیں تھی ۔
مجاہدین تھے اس لئے صرف مارٹرگنوں،ہینڈ گرینڈ اور مشین گنوں سے بھارتی لڑاکا طیاروں دو مار بوفرز توپوں کا مقابلہ کر رہے تھے ۔ناکام تو ہونا ہی تھا ۔
بھارتی پہلے جیٹ طیاروں اور بوفرز توپوں سے پہاڑی مورچے تباہ کرتے پھر بچ جانے والے پاکستانی فوجیوں پر حملہ کر کے بتدریج مورچوں پر قابض ہوتے جاتے ۔
یہ لڑائی نہیں تھی بلکہ غلیل اور توپ کا مقابلہ تھا ۔
برابر کی لڑائی 1965 اور حالیہ آپریشن سیندور میں ہوئی تھی جس میں بھارتیوں کا جو حال ہوا پوری دنیا اسکی گواہ ہے ۔
کارگل اور مشرقی پاکستان میں ہاتھ پاؤں باندھ کر فوج کو میدان میں پھینکا گیا تھا۔ناکامی جنرلوں کی ناقص حکمت عملی کی تھی فوجی جوانوں اور افسروں کی نہیں ۔
واپس کریں