دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
اجارہ داریوں نے پاکستان میں کاروبار میں بے ایمانی اور فراڈ کو فروغ دیا ہے
اظہر سید
اظہر سید
کشمیر ہائی وے پر خیبرپختونخوا کی ایک سیاسی شخصیت کے دو فرنچائز پٹرول پمپ ہیں۔دونوں پٹرول پمپس کے ساتھ انجن ،گئیر اور بریک آئل کی شاپس بھی ہیں۔یہاں فروخت ہونے والا مارکیٹ کا سب سے مہنگا آئل ہے ،مارکیٹ میں ایک لیٹر کی بوتل ہزار روپیہ کی ہے تو یہاں قیمت ذتیرہ اور چودہ سو روپیہ ہے ۔
دونوں پٹرول پمپس پر پیمانوں میں گڑ بڑ اور پٹرول ڈیزل میں ملاوٹ کی متعدد بار شکایات سامنے آئیں لیکن طاقتور مالکان کے سامنے اوگرا کے انسپکٹر کبھی پر مارنے کی ہمت نہیں کر سکے ۔
یہاں روزانہ ہزاروں گاڑیاں متبادل نہ ہونے کی وجہ سے ناقص اور کم پیٹرول ڈلوانے پر مجبور ہوتی تھیں۔
ایک غیر ملکی کمپنی ارمکو نے تین ہفتے قبل یہاں اپنا پٹرول پمپ شروع کیا ہے۔غیر ملکی مالک کے پیمانے پورے ہیں اور پٹرول ڈیزل میں کسی قسم کی ملاوٹ بھی نہیں ۔
نتیجہ یہ نکلا ہے خیبر پختونخوا کی طاقتور شخصیت کے دونوں پٹرول پمپ ویران ہو گئے ہیں۔پورے دن کی سیل جو تین ہفتے قبل 24 گھنٹے میں ستر سے اسی لاکھ روپیہ ایک پٹرول پمپ پر ہوتی تھی اب بیس سے تیس ہزار پر پہنچ گئی ہے۔
ارمکو کے پٹرول پمپ پر ہر وقت گاڑیوں کی طویل قطاریں ہوتی ہیں جبکہ منسلک پاکستانی مالک کے دونوں پٹرول پمپس پر ویرانیوں نے ڈیرے ڈال دئے ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ والے خاص طور پر غیر ملکی پٹرول پمپ کے مالک کو دعائیں دیتے ہیں کہ انکی گاڑیوں کی مائلج بڑھ گئی ہے ۔
اجارہ داریوں نے پاکستان میں کاروبار میں بے ایمانی اور فراڈ کو فروغ دیا ہے ۔صرف ایک مثال سامنے ہے تین ہفتوں میں ایک نئے کاروباری نے صرف صارفین کو ایمانداری کے زریعے جیت لیا ہے اور انہوں نے بے ایمانی کرنے والے کاروباری کا ایک طرح سے سماجی بائیکاٹ کر دیا ہے۔
پاکستانی کاروباری کے پاس اب صرف دو آپشن ہیں اپنا بزنس بند کر دے اور جو حرام مال اب تک کمایا ہے اس سے عیاشی کرے ۔
یا پھر غیر ملکی کاروباری کا مقابلہ کرنے کیلئے اس سے بہتر خدمات فراہم کرے۔
صارفین کو اگر ایک لیٹر غیر ملکی کمپنی کا انجن آئل ساڑھے آٹھ سو روپیہ میں ملے گا تو وہ کیوں چودہ سو روپیہ کا اک لیٹر انجن آئل خریدیں گے ۔
واپس کریں