اظہر سید
اس بدقسمت ملک کے اصل مجرم ففتھ جنریشن وار تشکیل دے کر کروڑوں نوجوانوں کو گمراہ کرنے والے ہیں۔ موبائل فون کسی بوڑھے کے پاس ہو نہ ہو ہر نوجوان کے ہاتھوں میں ضرور ہے ۔جھوٹ ،دھوکہ اور فراڈ کا یہ پودا جن زرخیز دماغوں نے لگایا ان کا بظاہر مقصد نواز شریف اور زرداری کو چور ڈاکو غدار مشہور کر کے عوامی رائے عامہ ہموار کرنا تھا اور نوسر باز کو قوم کا نیا لیڈر بنانا تھا ۔
ہدف حاصل ہو گیا۔ نوسر باز کروڑوں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا مسیحا نہیں بنا فوجی اور عدالتی گھرانوں کے اندر بھی لیڈر بن کر پہنچ گیا ۔
ملک کی معروف سیاسی جماعتوں اور انکی قیادت کو کامیابی کے ساتھ نکرے لگا دیا گیا ۔ ریاست دیوالیہ ہوئی تو افراتفری میں غیر جانبداری کا لبادہ پہن لیا لیکن جو گند پھیل چکا تھا اسکی صفائی چونکہ ممکن نہیں تھی اس لئے اسے ملک بھر میں بدبو پھیلانے کیلئے چھوڑ دیا ۔
ففتھ جنریشن وار پلوٹون جب کھڑی کی گئی تو دیگر محاذوں پر بھی تندہی سے کام کیا گیا ۔تحریک لبیک کے غبارے میں ہوا بھری گئی ۔ملک کی اعلی عدالتوں میں اگلے دس سال سامنے رکھتے ہوئے تعیناتیاں اور تقرریاں کی گئی ۔ثاقب نثار،کھوسہ،گلزار اور موجودہ چیف عطا بندیال سب کے سب عطار کے ایک ہی لونڈے سے دوا لیتے تھے ۔
غیر جانبداری کے کپڑے تو بظاہر پہن لئے لیکن وہ جو کہتے ہیں
"چھٹتی نہیں ہے کافر منہ سے لگی ہوئی"
پالتو ججوں سے کام لینا بند نہ کیا ۔ حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ پر ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے لچ تلنے سے باز نہیں آئے ۔ پالتووں سے آئین ری رائٹ کروا کر وزارت اعلیٰ ختم کرا دی ۔
"رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی"
نوسر باز کو فارغ تو کرا دیا لیکن سہولت کاری جاری رکھی ۔ گزشتہ سال یہی مئی کا مہینہ تھا نوسر باز کو اسلام آباد آنے اور آگ لگانے کی عدالتی اجازت دلائی گئی ۔فوج کے خلاف منظم پراپیگنڈہ مہم چلائی گئی لیکن اس مہینے نو اور دس مئی کے بعد جو انگڑائی لے کر بیدار ہوئے اس وقت نیند سے نہ جاگے ۔فوج کے خلاف زہن سازی ہوتی رہی ۔ تاثر بنتا رہا کچھ بھی کر لو فوج سوئی ہوئی ہے ۔
آئی ایم ایف ڈیل کے خلاف سازش کر کے ریاست نادہندہ کرانے کی کوشش پکڑی گئی ۔
امریکی سازش کا ڈرامہ رچا کر تحریک عدم اعتماد مسترد کی گئی ۔
ستو پی کر سوئے رہے ۔صرف یہ دو مقدمات ہی ٹھکانے لگانے کیلئے کافی تھے لیکن سہولت کاری کرتے رہے ۔کرتے رہے ۔کرتے رہے ۔
معاملات چھ ماہ قبل اسوقت تبدیل ہوئے جب حافظ صاحب چیف بنے ۔
حافظ صاحب کو بے پناہ چیلنجرز تھے ۔سابقہ چیف منافق تھا ۔وہ جاتے جاتے اہم جگہوں پر عمرانڈوز لگا گیا بلکہ چار اضافی لیفٹیننٹ جنرل بھی بنا گیا جو حافظ صاحب کا حق تھا ۔
اب پھر بہت بڑی غلطی ہونے جا رہی ہے ۔اصل مجرم فوجی تنصیبات کو آگ لگانے والے نوجوان نہیں بلکہ ان نوجوانوں کو گمراہ کرنے والے تخلیق کار اور ان تخلیق کاروں کو ضمانتیں دینے والے جج ہیں ۔
ملٹری کورٹس میں مقدمات کی شنوائی اور سزاؤں سے صرف بدنامی ملے گی اور کچھ نہیں ۔
بے ایمانی اور بدمعاشی اب بھی ہو رہی ہے ۔عوام کو گمراہ کرنے والے اوریا مقبول جان ،افتاب اقبال سمیت شریں مزاری ،فواد چوہدری اور اس قبیل کے لوگوں کو ضمانتیں مل رہی ہیں ۔عام کارکن سزائیں اور تشدد بھگت رہا ہے اور ملٹری کورٹس میں بھی یہی بھگتے گا ۔
عمران خان کو ملٹری کورٹس میں ٹرائل کریں گے تو بھی بدنامی ہی ہاتھ آئے گی۔ ففتھ جنریشن وار کی وجہ سے بلاشبہ یہ بہت بڑے ووٹ بینک کا مالک بن چکا ہے ۔عالمی سطح پر بھی اس کاایک تاثر بن چکا ہے ۔یہ وہ چھوچھندر ہے جو نہ نگلا جا سکےگا نہ اگلہ ۔ نوسر باز کا ٹرائل سول عدالتوں میں کرنے میں ہی بھلائی ہے ۔
پالتو ججوں پر ہاتھ ڈال دیں ۔جھوٹ ،دھوکہ اور فراڈ سے عوام کو گمراہ کرنے والے میڈیا کے پالتووں کو عبرت کا نشان بنا دیں ۔فوجی تنصیبات پر حملہ کی منصوبہ بندی کرنے والوں کو سرسری سماعت کرنے والی فوجی عدالتوں سے سزائیں سنائیں ۔ عام کارکنوں اور نوسر باز کے معاملات سول عدالتوں پر چھوڑ دیں ۔
کرنے کا کام یہ ہے کہ ججوں کو نکیل ڈالیں ۔اسوقت حافظ صاحب بغیر کسی فراڈ کے فوج کو سچ مچ غیر جانبدار کر چکے ہیں ۔جنرل باجوہ کی طرح دو کشتیوں کے سوار نہیں ہیں ۔ مسلہ یہ آن پڑا ہے فوج کے بغیر ہی ایک بہت بڑا عدالتی انفراسٹرکچر بن چکا ہے جو مفادات پر مشتمل ہے ۔یہ انفراسٹرکچر اپنے تحفظ کیلئے ہر قیمت پر نوسر باز کا تحفظ کرنے پر مجبور ہے ۔
پالتو میڈیا کے بہت سارے دانے بھی مفادات کے اپنے انفراسٹرکچر کی وجہ سے نوسر باز کی دم پکڑ کے اس کے پیچھے پیچھے چلتے رہیں گے ۔
ملٹری کورٹس سے اگر کام لینا ہے تو بدعنوان ججوں ،میڈیا ٹاوٹس اور نوسر باز کے ساتھ منسلک ہو کر مفادات حاصل کرنے والی لیڈر شپ کو ٹھکانے لگانے کا کام لیا جائے ۔بہت جلد سب کچھ ٹھیک ہونا شروع ہو جائے گا ۔
واپس کریں