طاہر سواتی
گریٹا تھنبرگ کو آپ سب ہی جانتے ہوں گے۔ جی ہاں، وہی گریٹا جو مشتاق احمد کے حالیہ غزہ ٹرپ میں بھی شامل تھی۔ سویڈن سے تعلق رکھنے والی 22 سالہ گریٹا کم عمری ہی سے ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف ایک سرگرم کارکن کے طور پر سامنے آئی۔
گزشتہ دنوں یہی عالمی شہرت یافتہ گریٹا برطانیہ میں دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار کر لی گئی۔ سوال یہ ہے کہ ایک معروف سماجی کارکن کی گرفتاری دہشت گردی ایکٹ کے تحت کیوں عمل میں آئی؟
وہ فلسطین ایکشن نامی تنظیم کے ان آٹھ اراکین سے یکجہتی کا اظہار کر رہی تھی جو جیل میں بھوک ہڑتال پر تھے۔ اس تنظیم نے مشرقِ وسطیٰ کی حالیہ جنگ کے دوران دو سال تک برطانیہ کے ہر بڑے شہر میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کیے، جنہیں آزادیِ اظہار کے بنیادی اصولوں کے تحت اجازت دی گئی۔ ان مظاہروں کے دوران کئی بینکوں کو نذرِ آتش کیا گیا اور توڑ پھوڑ بھی کی گئی، جسے برداشت کیا گیا۔
تاہم ایران۔اسرائیل جنگ کے دوران اس تنظیم نے رائل ایئر فورس کے جنگی طیاروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، یہ ریڈ لائن کراس کرنے کے بعد اس تنظیم پر دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی عائد کر دی گئی اور واضح طور پر اعلان کیا گیا کہ آئندہ اس پابندی کے خلاف یا تنظیم کے حق میں آواز اٹھانے والا بھی اسی قانون کے تحت گرفتار کیا جائے گا، خواہ وہ کوئی عالمی شہرت یافتہ شخصیت ہی کیوں نہ ہو۔
اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جلاؤ گھیراؤ اور تخریب کاری کو کبھی بھی آزادیِ اظہارِ رائے کے نام پر جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔
دوسری جانب پاکستان میں پی ٹی آئی نامی کلٹ کی سرکردہ قیادت کھلے عام 9 مئی کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث رہی، مگر ان کی گرفتاریوں یا سزاؤں پر بعض میڈیا حلقے انسانی حقوق اور “آزادیِ اظہار” کا شور مچاتے نظر آتے ہیں۔ اصولی طور پر تو برطانیہ کی طرز پر اس جماعت پر پابندی عائد کر دی جانی چاہیے تھی، لیکن اس وقت پاکستان میں جرنیلی لاڈلوں کے خلاف ایسا اقدام کرنا انتہائی مشکل تھا۔
ورنہ عمران نیازی اور اس کی جماعت پر 2014 کے دھرنوں کے دوران پارلیمنٹ ہاؤس اور پی ٹی وی پر حملوں، اور آئی جی کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دینے کے اعلانات کے بعد ہی پابندی لگا دینی چاہیے تھی۔ مگر اس وقت راحیل شریف کی قیادت میں تمام جرنیل ان کی حمایت میں کھڑے تھے، اور ظہیر الاسلام نے لندن پلان کے تحت انہیں لانچ کر دیا تھا۔
اسی لاڈ پیار کا نتیجہ یہ نکلا کہ برطانیہ کے شہر بریڈفورڈ میں اسی کلٹ کی ایک خاتون نے پاکستان کے سی ڈی ایس اور آرمی چیف عاصم منیر کی گاڑی کو بم سے اڑانے کی دھمکی دی۔ برطانوی قوانین کے مطابق اس نوعیت کا بیان آزادیِ اظہار کے زمرے میں نہیں آتا ۔ بلکہ یہ دہشت گردی ایکٹ کا معاملہ ہے۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس معاملے پر باضابطہ طور پر برطانوی حکام کے پاس شکایت درج کرا دی ہے۔
برطانیہ میں ہر ادارہ آزادانہ طور پر اپنی ذمہ داریاں انجام دیتا ہے، اور اب قانون حرکت میں آ چکا ہے۔ مذکورہ خاتون اور اس کے حامیوں کو اب اپنی حرکات کے نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
پی ٹی آئی نے سوشل میڈیا کے تمام پلیٹ فارمز سے اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کرنا شروع کر دیا ہے، لیکن معاملہ اب اس حد سے آگے جا چکا ہے۔ قوی امکان یہی ہے کہ جس طرح الطاف حسین کی ایک اشتعال انگیز تقریر کے بعد ان پر پابندی عائد کی گئی اور انہیں پاکستانی سیاست سے عملاً غیر متعلق کر دیا گیا، اسی طرح پی ٹی آئی کے انٹرنیشنل چیپٹر کو بھی مکمل طور پر بند کر دیا جائے گا۔
دوسری طرف پاکستان میں حلیمہ باجی کا بیانیہ بھی اب مزید نہیں بکنے والا، اور نہ ہی مہاتما کی نو سر بازیاں چل سکیں گی۔ اداروں میں ان کے حمایتی افسران عنقریب ریٹائر ہو رہے ہیں، جس کے بعد حافظ صاحب کو یہ کہنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا:
“سر! اب جانے بھی دیں، بہت ہو گیا۔”
واپس کریں