دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مال مفت، دل بے رحم،طاہر سواتی
طاہر سواتی
طاہر سواتی
سب سے پہلے یہ بات یاد رکھیں کہ پی آئی اے، اورینٹ ائیر ویز نامی ایک پرائیویٹ ائیر لائن کو نیشنلائز کر کے معرض وجود میں لائی گئی تھی۔
قیامِ پاکستان سے قبل اورینٹ ائیر ویز کی بنیاد 29 اکتوبر 1946 کو مرزا احمد اصفہانی اور آدم جی حاجی داؤد نے رکھی۔ ابتدا میں یہ ایئر لائن کلکتہ، برطانوی ہند میں قائم تھی، تاہم اگست 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد اس کے آپریشنز پاکستان منتقل کر دیے گئے۔
بعد ازاں 10 جنوری 1955 کو حکومتِ پاکستان نے اورینٹ ائیر ویز کو قومی ملکیت میں لے کر پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن (PIAC) قائم کی۔ اس نئی ایئر لائن نے 1955 میں قاہرہ اور روم کے راستے لندن کے لیے بین الاقوامی پروازوں کا آغاز کیا۔ 1964 میں یہ چین کے لیے پرواز کرنے والی پہلی غیر کمیونسٹ ایئر لائن بنی۔
پی آئی اے اور اسٹیل مل جیسے ادارے سرکاری تحویل کی بجائے پرائیویٹ سیکٹر میں کیوں بہتر چلتے ہیں، یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر لمبی بحث ہو سکتی ہے۔
صرف ایک مثال ملاحظہ فرمائیں:
قطر ائیر ویز ایک مثالی ایئر لائن ہے، جس کے پاس اس وقت 239 جدید طیارے ہیں۔ ان کی اوسط افرادی قوت فی طیارہ سو افراد ہے۔ اس کے باوجود 2021 میں قطری حکومت نے تین ارب ڈالر (تقریباً 850 ارب پاکستانی روپے) قطر ائیر ویز کو سپورٹ کے لیے جاری کیے۔
لیکن قطر جیسا تیل و گیس سے مالا مال ملک قطر ائیر ویز کو کمائی کی بجائے اپنی قومی تشہیر کے لیے چلا رہا ہے۔
2021-22 میں پی آئی اے کے پاس تیس طیارے اور 14 ہزار افرادی قوت تھی۔ اس وقت پی آئی اے کے پاس 18 طیارے ہیں، جنہیں چلانے کے لیے 10,500 افراد ہیں۔ یہ فی طیارہ پانچ سو افراد بنتے ہیں، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اور یہ ملازمین بھی اپنی مرضی سے کام کرنے کے مالک ہیں، آپ کسی کو نکال نہیں سکتے۔
حالیہ نجکاری سے پی آئی اے بتدریج پرائیویٹ سیکٹر میں چلی جائے گی، جس سے نہ صرف اس کی کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ حکومت کو سالانہ پچاس ارب روپے کے قریب نقصان سے نجات مل جائے گی۔
سردست اس نجکاری پر حکومت کے مخالفین کی رائے جانئے:
“قوم یوتھ” کے کارل مارکس، شبر زیدی فرماتے ہیں:
“پی آئی اے کی نجکاری اتنی ضروری تھی، کہ اگر آپشن یہ ہوتا کہ حکومت 135 ملین (یا عارف حبیب) کو دے گی اور وہ پھر چلائے گا تو میں پھر بھی یہ ٹرانزیکشن کر دیتا۔ اب وزیراعظم بھی ٹکٹ لے کر سفر کرے گا۔ ماہرینِ معاشیات اب بیوروکریسی سے بڑا مسئلہ بن چکے ہیں پاکستان میں۔”
پی ٹی آئی کے مشیرِ خزانہ مزمل اسلم کا پی آئی اے کی نجکاری کے بارے میں کہنا ہے:
“حکومت نے گھاٹے کا سودا نہیں کیا، چالیس پچاس ارب سالانہ کے نقصان سے جان چھوٹی۔ پی آئی اے اگر چل گئی تو حکومت کو ٹیکس دے گی۔ یہ کام اگر ن لیگ 2015 میں کر دیتی تو 800 ارب کا قرضہ نہ بڑھتا، پیپلز پارٹی اگر 2009 میں کر دیتی تو اور فائدہ ہوتا۔ دیر آید درست آئید۔ پی آئی اے کی تباہی میں پی ٹی آئی سمیت تمام حکومتوں کا حصہ ہے۔”
حکومت کے سب سے بڑے ناقد اور پی آئی اے کے سابق چیئرمین شاہد خاقان عباسی نے اس کو سراہا ہے۔
مفتیاح اسماعیل کہتے ہیں: اگر پی آئی اے ایک روپے میں بھی بکتی تو بیچ دینی چاہیے تھی۔
لیکن ان سب کے باوجود “قوم یوتھ” کا موقف ہے کہ “مال مفت، دل بے رحم”۔ حکومت نے ایک بہت بڑا قومی ادارہ اونے پونے میں بیچ دیا۔ اس سے مہنگے تو ہمارے کپتان نے توشہ خانے کے پرانے اور ناکارہ تحائف بیچے تھے۔ مان لو کہ یہ نااہل حکومت ناکام ہوچکی ہے۔
واپس کریں