طاہر سواتی
قومِ یوتھ کے "تایا ابو" جنرل فیض حمید کو چودہ سال قیدِ بامشقت کی سزا سنا دی گئی۔ فیض کے خلاف 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی کا آغاز ہوا، جو مجموعی طور پر 15 ماہ تک جاری رہی۔ سماعت کے دوران جنرل فیض کے تین وکلا نے 15 ماہ تک مقدمہ کو کھینچا۔ 24 گواہ اُن کے خلاف جبکہ تین گواہ اُن کے حق میں پیش ہوئے۔ اُن کے تینوں گواہوں کو عدالت لانے سے پہلے جنرل فیض سے ذاتی ملاقات کرائی گئی۔ وکلاءِ صفائی نے مخالف گواہوں سے 8 ہزار سوالات کیے۔ فیض کے ایک وکیل علی اشفاق نے ایک دن مسلسل ساڑھے چودہ گھنٹے دلائل دیے۔
ملزم پر چار الزامات میں مقدمہ چلایا گیا: سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، Official Secrets Act کی خلاف ورزی جو ریاست کی سلامتی اور مفاد کے لیے نقصان دہ تھی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا ناجائز استعمال، اور افراد کو غیر قانونی طور پر نقصان پہنچانا۔ اِس کے علاوہ سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت کے ذریعے ذاتی مفاد پر مبنی سیاسی افراتفری اور عدم استحکام پیدا کرنے، نیز دیگر متعلقہ معاملات میں اُن کی مبینہ شمولیت کا الگ سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔
میری ناقص اطلاع کے مطابق، چند ماہ قبل عمران خان کے خلاف 9 مئی کے واقعات کے مقدمے کی تفتیش روک دی گئی تھی، لیکن حالیہ ٹویٹ اور "ہمشیرگان" کی بھارتی میڈیا پر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کے بعد یہ تفتیش دوبارہ شروع کر دی گئی ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ دونوں اکٹھے "فیض یاب" ہوں گے۔
فیض صاحب بڑی ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔
آپ مرشد ( نیازی ) کی مرشد ( پنکی ) کے پیر مرشد تھے۔
اور بیک وقت پاکستان مخالف افغان طالبان، ٹی ٹی پی، ٹی ایل پی اور پی ٹی آئی کے سرپرستِ اعلیٰ تھے۔ اُنہوں نے سیاسی انجینئرنگ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی اور بیک وقت عدلیہ، میڈیا، نیب اور سیاسی جماعتوں کو "مینیج" کر رہے تھے۔ پاک فوج میں محکمہ زراعت اور خلائی مخلوق کے پروجیکٹ بھی اعلیٰ حضرت کے شروع کردہ تھے۔ آخر میں تو اتنے طاقتور ہو گئے تھے کہ جنرل باجوہ کو لٹّو کی طرح نچاتے تھے۔ اعلیٰ سطحی اجلاس جی ایچ کیو کی بجائے آبپارہ میں ہوتے تھے۔
اُن کا نام سب سے پہلے نواز شریف سامنے لائے جب وہ برطانیہ میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے، ورنہ اِس سے پہلے قوم اِس گمنام "ہیرو" کے کرتوتوں سے ناواقف تھی۔ پھر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے راولپنڈی بار سے خطاب کے دوران پہلی بار فیض کے عدالتی امور میں مداخلت کا انکشاف کیا، جس کے نتیجے میں شوکت صدیقی کو نوکری سے برطرف ہونا پڑا۔ شوکت عزیز کے مطابق، 2018 کے انتخابات سے قبل فیض حمید اُن کے پاس آئے اور نواز شریف کے مقدمے کے بارے میں استفسار کیا۔ جب اُنہوں نے بتایا کہ نواز شریف کے مقدمے کا فیصلہ میرٹ پر کروں گا، تو اُس پر فیض حمید نے وہ تاریخی جملہ کہا:
"اِس طرح تو ہماری دو برس کی محنت ضائع ہو جائے گی۔"
بعد میں فیض آباد دھرنا کیس میں فیض حمید کے خلاف فیصلہ دینے پر قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف بھی ریفرنس دائر کر دیا گیا۔ فیض حمید نے نواز شریف کی حکومت ختم کروانے، نااہل کروانے اور عمران خان کو وزیر اعظم بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نواز شریف کے خلاف بننے والی جے آئی ٹی میں دو "فیض یافتہ" بریگیڈیئرز نے بھی اہم کردار ادا کیا، جس کا اعتراف "مہاتما نیازی" بھی کر چکے ہیں۔ پاناما کیس میں جسٹس اعجاز الاحسن کو مانیٹرنگ جج لگوا کر فیصلہ دلوایا۔
حضرت فیض نے بریلوی جیسے امن پسند مذہبی طبقے کو بھی تشدد پر اُبھارا۔ خادم رضوی کے فیض آباد دھرنے کا میلہ فیض ہی نے سجایا ہوا تھا۔ جب پولیس نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر اُن کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا، تو فیض نے اپنے لشکرِ میسرہ کو پولیس پر دھاوا بولنے کا حکم دیا۔ سامنے گالوی کے شرپسند اور پیچھے فیض کا لشکر—پولیس درمیان میں پھنس کر رہ گئی اور اُسے کافی نقصان اُٹھانا پڑا۔ آج کے "اینٹی اسٹیبلشمنٹ انقلابی" شاہد خاقان عباسی اُس وقت وزیر اعظم تھے۔ باجوہ نے بیرون ملک سے خاقان عباسی کو فون کر کے طاقت کے استعمال سے پرہیز کا مشورہ دیا۔ اُس وقت کے وزیر داخلہ احسن اقبال کی مخالفت کے باوجود، شاہد خاقان نے فیض کو "گارنٹر" تسلیم کیا۔
ایسے ہی ٹی ٹی پی کے ہزاروں دہشت گردوں کو "ری ہیبلی ٹیٹ" کرنے کا سہرا بھی فیض کے سر جچتا ہے، جن کی کارروائیوں سے آئے روز سیکیورٹی اہلکار شہید ہو رہے ہیں۔ نیز، فیض حمید نے ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے عہدے اور وردی کا غلط استعمال کیا۔ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے مالک سمیت اُن کے خاندان کو اپنی ٹیم کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا، اُنہیں تحویل میں رکھا، اور گھر پر چھاپہ مار کر سامان بھی لوٹا گیا۔ فیض کا بھائی نجف حمید بھی زمینوں کے ناجائز قبضوں میں ملوث رہا۔
فیض کے اعمالِ بد کی ایک طویل داستان ہے، جس پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں۔
فیض نہایت شاطر انسان ہیں ، اتنے سارے اقدامات کرنے کے بعد، جب نومبر 2022 میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا وقت آیا تو انہوں نے نواز شریف کو ویڈیو کال کی، اس کے ساتھ روا رکھے گئے ذیادتیوں کا اعتراف کیا، اور اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھایا کہ اگر انہیں ایک بار آرمی چیف بنا دیا جائے تو وہ ہر زیادتی کا ازالہ کر دیں گے۔ مگر میاں نواز شریف ان کے اس فریب میں نہیں آئے۔
اس کے بعد فیض نے جنرل باجوہ کے ذریعے وزیرِ اعظم شہباز شریف پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی۔ باجوہ نے آدھی رات کو شہباز شریف کو جگا کر کہا کہ اگر عاصم منیر کو آرمی چیف بنایا گیا تو فوج اسے قبول نہیں کرے گی، اور انہیں مجبوراً مارشل لا لگانا پڑے گا۔ اس پر نواز شریف نے دوٹوک جواب دیا کہ اگر مسلم لیگ ن کی حکومت کسی کو آرمی چیف بنائے گی تو وہ صرف عاصم منیر ہی ہوں گے، چاہے مارشل لا ہی کیوں نہ لگ جائے۔
"مقامِ فیض" سے "انجامِ فیض" تک اِس کہانی میں ہمارے لیے ایک سبق ہے کہ بادشاہت سدا خدا کی ہے—ہر فرعون اور شداد کے لیے زوال ہے۔
بلاول بھٹو کے بقول:
“ عمران خان اور فیض حمید دونوں اپنے وقت کے فرعون تھے، آج مکافاتِ عمل سے گزر رہے ہیں۔ اُنہوں نے مریم نواز، فریال تالپور سمیت بے شمار سیاسی مخالفین کی گھروں کی عورتوں کو نشانہ بنایا، مگر آج سب نے دیکھ لیا کہ وہ خود مکافاتِ عمل کا شکار ہیں۔ دوسرا فرعون جنرل فیض حمید تھا، جس نے سیاست دانوں، میڈیا ہاؤسز اور اداروں میں کسی کو نہیں بخشا، اور اب وہ بھی اِسی انجام سے گزر رہا ہے۔ اِن دونوں کی حالت دیکھ کر ہر اُس شخص کو عبرت پکڑنی چاہیے جو طاقت کو دائمی سمجھ بیٹھتا ہے۔"
یاد ہے، نواز شریف نے گجرانوالہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا نا کہ
"جنرل فیض، آپ کو جواب دینا پڑے گا"—
آج فیض سے جواب مانگا گیا ہے۔
دورِ فیض میں نیازی اپنے مخالفین کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانے کے بعد سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلاتے تھے کہ "کوئی پوچھے تو کہنا، خان آیا تھا"۔
اب کوئی پوچھے تو کہنا، "شہباز آیا تھا"۔
ہمیشہ یہ سننے میں آیا ہے کہ پاکستان میں طاقتوروں کا کبھی احتساب نہیں ہوتا، مگر اب پہلی بار ملک کے سب سے طاقتور ادارے—فوج—کی نمبر ون ایجنسی کے سربراہ کا احتساب کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب کسی کے لیے بھی معافی کی گنجائش نہیں ،
قومِ یوتھ کے لیے تو نیک مشورہ ہے کہ آج کل چاچو اگر کسی پبلک خطاب میں حافظ جی کی تعریف کر لیں، تو بلا تردُّد وضو کر کے تیاری پکڑیں کہ مصیبت آنے والی ہے۔
واپس کریں