دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"ملک پرویز اموی، ایک سچا کارکن، ایک نڈر وکیل اور ایک مثالی امیدوار"
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
میانوالی کے پسماندہ علاقہ چھدرو کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں جنم لینے والے ملک پرویز اموی کی کہانی ایک مثال ہے اُن نوجوانوں کے لیے جو مشکل حالات کے باوجود ہمت نہیں ہارتے۔ غربت، وسائل کی کمی اور محرومیوں کے باوجود انھوں نے ہار نہیں مانی۔ محنت کی، تعلیم حاصل کی اور آج وہ لاہور میں ایک معروف وکیل کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ملک پرویز نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے سکول سے حاصل کی اور پھر مسلسل محنت کے بعد قانون کی ڈگری حاصل کی۔ آج وہ لاہور میں دہشتگردی کے مقدمات کے ماہر وکیل سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن ان کی اصل پہچان صرف ان کی پیشہ ورانہ کامیابی نہیں بلکہ وہ قربانیاں ہیں جو انہوں نے پاکستان تحریک انصاف اور اس کے کارکنوں کے لیے دیں۔ 9 مئی کے واقعات کے بعد جب پی ٹی آئی کو ریاستی جبر اور سخت قانونی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑا تو بہت سے رہنما پارٹی چھوڑ گئے کئی روپوش ہو گئے اور کچھ نے خاموشی اختیار کر لی۔ ایسے مشکل وقت میں ملک پرویز ایڈووکیٹ وہ واحد شخصیت تھے جنہوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ انہوں نے لاہور اور سرگودھا کی دہشتگردی کی عدالتوں میں دو سال کے دوران ہزاروں کارکنوں کے کیسز نہ صرف مفت لڑے بلکہ اپنے ذاتی خرچہ سے ان کی ضمانتیں بھی کروائیں۔ ان دو سالوں میں انہوں نے کوئی ذاتی مقدمہ نہیں لیا، اپنے خاندان اور روزگار کو نظر انداز کر کے صرف تحریک انصاف کے کارکنوں کی قانونی مدد کی۔ ان کے اس جذبے اور بے لوث خدمت نے نہ صرف پارٹی ورکرز کا دل جیتا بلکہ عوامی سطح پر بھی ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ حال ہی میں سرگودھا کی انسداد دہشتگردی عدالت نے پی ٹی آئی کے اپوزیشن لیڈر ملک احمد خان بھچر کو 10 سال قید کی سزا سنائی ہے جس کے بعد وہ حلقہ پی پی 87 سے نااہل قرار پا چکے ہیں اور اس نشست پر ضمنی انتخاب کا اعلان ہو چکا ہے اب یہ سوال شدت سے اٹھ رہا ہے کہ کیا پی ٹی آئی اس حلقہ میں کسی ایسے شخص کو ٹکٹ دے گی جس نے مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ چھوڑا یا پھر اُس شخص کو عزت دے گی جو ہر امتحان میں پارٹی کے ساتھ کھڑا رہا۔ بدقسمتی سے پی ٹی آئی کی تاریخ یہ رہی ہے کہ الیکشن کے وقت مخلص کارکنوں کو نظر انداز کر کے ایسے افراد کو ٹکٹ دیے جاتے ہیں جن کا میدانِ جدوجہد سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسے فیصلے پارٹی کی ساکھ کو نقصان پہنچاتے ہیں اور مخلص کارکنوں کے دل توڑتے ہیں۔ اگر اس بار بھی ایسا ہی ہوا تو یہ پارٹی کیلئے ایک اور بدنامی کا باب ہو گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پی ٹی آئی اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرے اور آزمائے ہوئے وفادار اور خدمت گزار افراد کو آگے لائے۔ ملک پرویز ایڈووکیٹ ایک مثالی امیدوار ہیں جو پارٹی کی نظریاتی بنیادوں پر پورا اُترتے ہیں۔ وہ نہ صرف ایک کامیاب وکیل ہیں بلکہ ایک سچے کارکن بھی ہیں جنہوں نے بغیر کسی لالچ کے اپنے علاقہ، پارٹی اور کارکنوں کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ اب فیصلہ پی ٹی آئی کی قیادت اور میانوالی کے کارکنوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر وہ واقعی ایک نظریاتی، وفادار اور خدمت گزار نمائندہ چاہتے ہیں تو حلقہ پی پی 87 کے لیے ملک پرویز اموی سے بہتر کوئی دوسرا امیدوار نہیں ہو سکتا
واپس کریں