دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
خدارا اپنی بیٹیوں کی جان بچائیں
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
تحصیل عیسیٰ خیل کے پسماندہ ترین علاقہ خٹک بیلٹ سے تعلق رکھنے والی ایک پچاس سالہ خاتون ہمارے پاس الحمید ہسپتال میں ڈاکٹر جواد کے پاس اپنی 25 سالہ شادی شدہ بیٹی کو لے کر چیک اپ کرانے آئی اور اس کا کہنا تھا کہ اس کی بیٹی کی شادی کو صرف دو سال ہوئے تھے۔ اس لڑکی کا شوہر مزدور تھا اور بڑی مشکل سے گھر کا خرچ چلاتا تھا۔ اچانک لڑکی کے جسم پر چھالے سے نمودار ہوئے اور ماہواری میں اسے بہت زیادہ خون آنا شروع ہوا اور کمر میں شدید درد رہنے لگا۔ ڈاکٹر جواد نے جب تفصیلی معائنہ کیا اور ٹیسٹ کروائے تو انہیں شک پڑا کہ شاید لڑکی کو سرویکل کینسر کی شکایت ہے لہٰذا ڈاکٹر صاحب نے انہیں لاہور یا راولپنڈی کسی اچھے ہسپتال سے ٹیسٹ کرانے کا مشورہ دیا۔ خاتون کا کہنا تھا کہ ان کے پاس تو راولپنڈی جانے کا کرایہ بھی نہیں ہے اور اس کا شوہر کوئلہ کی مائن میں سات سو روپے روزانہ پر مزدوری کرتا ہے ۔ بہرحال وہ اسی پریشانی میں وہاں سے چلے گئے اور پتہ چلا کہ انھوں نے علاقہ کی کسی مخیر شخصیت سے کرایہ اور ٹیسٹ کی مد میں خیرات کی رقم وصول کی اور جب ٹیسٹ کرایا تو ڈاکٹر جواد کا شک درست ثابت ہوا کہ لڑکی کو سرویکل کینسر ہے جو کافی حد تک بڑھ چکا ہے۔ جبکہ ڈاکٹروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک تو اس بیماری کا علاج بہت مہنگا ہے دوسرا ان کے پاس کینسر کے بہت زیادہ مریض ہونے کی وجہ سے جگہ کی بھی کمی ہے۔ اس صورتحال میں رقم ادھر ادھر سے مانگ کر مقامی طور پر علاج کرانے کی کوشش کی گئی لیکن آخر کچھ عرصہ بعد ایک قیمتی جان سب کے سامنے چلی گئی۔ یوں ایک ہنستا بستا گھر کچھ عرصہ کے اندر اجڑ گیا۔ یہ سچی کہانی ہمارے ہر گاؤں اور ہر محلہ کی بھی ہو سکتی ہے اگر آج ہم نے لاپرواہی کی تو کل کو یہی رونا ہمارے گھروں میں بھی سنائی دے سکتا ہے۔ پاکستان سمیت پسماندہ ممالک میں خواتین میں سرویکل کینسر بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور ضلع میانوالی میں تو بریسٹ کینسر کے بعد یہ دوسری بڑی بیماری ہے جس کی وجہ سے ہماری بیٹیاں اور بہنیں اپنی جان سے ہاتھ دھو رہی ہیں۔ سرویکل کینسر بھی ان بیماریوں میں سے ایک ہے جو آہستہ آہستہ زندگی نگل لیتی ہیں اور جب تک ان کا پتہ چلتا ہے تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ اسے اردو میں بچہ دانی کے منہ کا کینسر بھی کہا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر ہر سال لاکھوں خواتین اس بیماری کا شکار ہوتی ہیں اور پاکستان میں اس کے کیسز بڑھتے جا رہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً پانچ ہزار سے چھ ہزار خواتین اس موذی مرض کا شکار ہوتی ہیں اور ان میں سے قریباً تین ہزار سے زیادہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں اس کا مطلب ہے کہ روزانہ اوسطاً آٹھ سے نو خواتین اس بیماری کے باعث دم توڑ دیتی ہیں۔ سرویکل کینسر کی سب سے بڑی وجہ ایک وائرس ہے جسے "ایچ پی وی" کہا جاتا ہے۔ یہ وائرس خواتین کے جسم میں کئی سال تک خاموش رہ سکتا ہے۔ بظاہر اس کی کوئی علامت نہیں ہوتی لیکن اندر ہی اندر یہ وائرس جسم کے خلیات کو نقصان پہنچاتا رہتا ہے اور پھر کینسر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب تک علامات ظاہر ہوتی ہیں بیماری خطرناک حد تک بڑھ چکی ہوتی ہے۔ ان علامات میں غیر معمولی خون آنا، کمزوری، کمر یا پیٹ میں درد اور بار بار بیماری لگنا شامل ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں زیادہ تر خواتین یہ علامات نظر انداز کر دیتی ہیں یا پھر شرم و جھجک کی وجہ سے ڈاکٹر کے پاس نہیں جاتیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب تک مرض کا پتہ چلتا ہے تب تک علاج مشکل اور مہنگا ہو چکا ہوتا ہے۔
اگر ہم دنیا کی بات کریں تو ترقی یافتہ ممالک نے اس بیماری پر بڑی حد تک قابو پا لیا ہے کیونکہ وہاں بچیوں کو کم عمری میں ہی ایک خاص ویکسین لگائی جاتی ہے جو ایچ پی وی وائرس کے خلاف حفاظت فراہم کرتی ہے اس ویکسین کو دنیا بھر میں محفوظ اور مؤثر قرار دیا گیا ہے۔ جہاں یہ ویکسین عام ہوئی ہے وہاں سرویکل کینسر کے کیسز میں پچاس فیصد سے بھی زیادہ کمی دیکھی گئی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے ملک میں تعلیم اور شعور کی کمی کی وجہ سے لوگ اس ویکسین کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔ حکومت کی طرف سے 9 سے 14 سال کی بچیوں کو ویکسینیشن کی مہم جھوٹے پروپیگنڈہ کی وجہ سے ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ضلع میانوالی میں محکمہ صحت کی ٹیموں کو ہر یونین کونسل کی سطح پر متعین ٹیم کو روزانہ دو سو بچیوں کو ویکسین لگانے کا ہدف دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹیمیں روزانہ بمشکل پانچ یا چھ بچیوں کو ویکسین لگا رہی ہیں ۔ اسی طرح گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کمرمشانی میں آٹھ سو بچیوں کو ویکسین لگانے کا منصوبہ تھا مگر صرف چھ بچیوں کو یہ ویکسین دی جا سکی۔ یہ اعداد و شمار بہت افسوس ناک ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پروپیگنڈہ کتنا طاقتور ہے اور عوامی شعور کتنا کمزور؟ ہمارے معاشرہ میں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ جھوٹ پر جلدی یقین کر لیتے ہیں اور سچ کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ایک مخصوص طبقہ ویکسین کے خلاف بے بنیاد باتیں پھیلا رہا ہے کہ یہ ویکسین نقصان دہ ہے یا بچیوں کی زچگی پر اثر ڈالے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب جھوٹ ہے، دنیا کے درجنوں ممالک میں لاکھوں بچیاں یہ ویکسین لگوا چکی ہیں اور محفوظ ہیں۔ اگر کوئی نقصان ہوتا تو وہ سب سے پہلے وہاں سامنے آتا جہاں تعلیم اور میڈیا زیادہ مضبوط ہیں۔ والدین کو سمجھنا چاہیے کہ یہ ویکسین ان کی بیٹی کی زندگی کی حفاظت ہے۔ اگر آج بچی کو یہ حفاظتی ٹیکہ لگوا دیا جائے تو کل کو وہ ایک صحت مند زندگی گزار سکتی ہے اور اپنا صحت مند خاندان بنا سکتی ہے اور ایک بڑی مصیبت سے محفوظ رہ سکتی ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ کینسر کا علاج نہ صرف مشکل ہے بلکہ لاکھوں روپے خرچ کر دیتا ہے اور اکثر پھر بھی زندگی بچانا ممکن نہیں رہتا۔ لیکن ویکسین بالکل مفت ہے اور آسانی سے لگوائی جا سکتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ دیہات کے معززین، امام مسجد، اساتذہ اور بااثر لوگ اس مہم میں آگے بڑھ کر عوام کو قائل کریں کیونکہ عام لوگ انہی کی بات پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں اگر وہ خود اپنی بچیوں کو ویکسین لگوائیں گے اور دوسروں کو ترغیب دیں گے تو آہستہ آہستہ ماحول بدلے گا اور لوگ سمجھیں گے کہ یہ ان کے فائدہ کے لئے ہے۔ آخر میں ہم سب کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اپنی بچیوں کو اس بیماری سے بچانا صرف حکومت یا محکمہ صحت کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ ہر والدین کا فرض ہے کیونکہ ہماری بیٹی ہماری امانت ہے اور اسے صحت مند زندگی دینا ہماری ذمہ داری ہے۔ پروپیگنڈہ پر کان نہ دھریں حقیقت کو پہچانیں اور اپنی بیٹیوں کو اس مہلک بیماری سے بچائیں۔ آج جو قدم آپ اٹھائیں گے وہ آنے والی نسلوں کو ایک بڑی مصیبت سے نجات دلائے گا۔ اور ضلعی انتظامیہ کو بھی چاہیے کہ جھوٹے پروپیگنڈہ کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے کیونکہ یہی لوگ زمین پر فتنہ پھیلانے کا موجب بن رہے ہیں اور اپنی جاہلیت کی وجہ سے لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں لہٰذا ان لوگوں کے خلاف اقدام قتل کی ایف آئی آرز درج کرائی جائیں
واپس کریں