دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"کیا ہم سائل ہیں یا شہری"
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
کل مجھے ایک سرکاری دفتر جانے کا اتفاق ہوا تو دفتر میں ایک بورڈ لگا ہوا تھا کہ دفتر آنے والے سائلین اس کاؤنٹر پر اپنی درخواست جمع کرائیں۔ دفتر میں لگے اس بورڈ پر اپنے بارے میں لکھا لفظ "سائل" دیکھ کر دل میں عجیب سی شرمندگی محسوس ہوئی کہ اندر بیٹھا ہوا شخص کیا کوئی شہنشاہ جہانگیر کا بیٹا یا بھانجا ہے کہ جن لوگوں کے ٹیکس سے تنخواہ لے رہا ہے انہیں کو "سائل" سمجھتا ہے۔ لفظ سائل یا سائلین آپ کو ہر سرکاری دفتر میں استعمال ہوتا نظر آئے گا۔ لیکن تھوڑا گہرائی میں سوچا جائے تو معلوم ہو گا کہ زبان محض الفاظ کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ یہ طاقت اور رویّے کی عکاس بھی ہوتی ہے۔ ہم جو لفظ استعمال کرتے ہیں وہ نہ صرف سامنے والے کی حیثیت متعین کرتا ہے بلکہ بولنے والے کے ذہنی رویّے کو بھی عیاں کر دیتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر ہم پڑھی لکھی قوموں کی سطح پر جا کر سوچیں تو سرکاری دفاتر میں استعمال ہونے والی زبان ایک سنجیدہ اخلاقی سوال کو جنم دیتی ہے۔ لغت کے مطابق سائل کا مطلب (سوالی) سوال کرنے والا ہوتا ہے مگر اردو کے عرف میں یہ لفظ عموماً محتاج، فقیر یا خیرات مانگنے والے کے لئے بولا جاتا ہے اور اسی نقطہ نے میری عزت نفس کو مجروح کیا۔ دنیا بھر میں دیکھیں تو ریاست کا نظام اس اصول پر قائم ہوتا ہے کہ افسر عوام کے خادم ہوتے ہیں اور عوام ریاست کے اصل مالک ہوتے ہیں، افسران اپنی تنخواہ عوام کے ٹیکس سے لیتے ہیں اور ان کا بنیادی فرض عوامی مسائل کا حل ہے۔ ایسی صورت میں جو شہری اپنے قانونی یا آئینی حق کے لئے دفتر آتا ہے تو وہ کسی پر احسان نہیں جتاتا اور نہ ہی وہ خیرات کا طلبگار ہوتا ہے بلکہ وہ ایک حق دار شہری ہوتا ہے اور کسی حق دار کو سائل کہنا محض لفظی غلطی نہیں بلکہ ایک سوچ کی عکاسی ہے۔ ایسی سوچ جو شہری کو کمزور اور افسر کو طاقتور ثابت کرتی ہے۔ یہ زبان غیر محسوس طریقہ سے غلامانہ ذہنیت کو فروغ دیتی ہے جہاں حق مانگنا بھی بھیک سمجھا جاتا ہے۔ مہذب معاشروں میں زبان شہری کی عزت گھٹانے کی بجائے بڑھاتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو ہمارے پاس بہتر اور باوقار الفاظ موجود ہیں جیسے درخواست گزار، شہری یا شکایت کنندہ۔ اور یہ الفاظ اخلاقی طور پر بھی متوازن اور شائستہ ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ ہم اپنی سرکاری تحریروں میں الفاظ کے انتخاب پر سنجیدگی سے غور کریں۔ اور یہی سنجیدگی ہمیں اس سوال تک بھی لے جاتی ہے کہ زبان آخر بنتی کیسے ہے؟ سرکاری زبان دراصل کوئی فطری شے نہیں ہوتی یہ طاقت کے مراکز میں تشکیل پاتی ہے اور پھر نیچے تک سرایت کرتی چلی جاتی ہے۔ جب سرکاری فائلوں اور دفاتر میں ایک لفظ بار بار استعمال ہوتا ہے تو وہ آہستہ آہستہ معمول بن جاتا ہے اور معمول ہی آگے چل کر روایت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری بہت سی سرکاری روایات نوآبادیاتی دور کی باقیات ہیں جہاں حاکم اور محکوم کے درمیان واضح لکیر کھینچی جاتی تھی۔ اور لفظ سائل بھی اسی ذہنیت کی پیداوار ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ زبان صرف بیان نہیں کرتی بلکہ تربیت بھی کرتی ہے۔ جب ایک نوجوان کلرک یا افسر روزانہ فائل میں 'سائل حاضر ہوا' یا 'سائل کو ہدایت کی گئی' جیسے جملے لکھتا ہے تو اس کے لاشعور میں یہ بات بیٹھ جاتی ہے کہ سامنے والا کوئی برابر کا شہری نہیں بلکہ کم تر حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے برعکس اگر اسی کو درخواست گزار یا شہری لکھ دیا جائے تو یہ نوابی رویہ خود بخود بدلنے لگے گا۔ شہری کو سائل کہنا پوشیدہ تحقیر کی ایک مثال ہے جو بظاہر معمولی مگر اثر میں گہری ہے۔ میں یہاں وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز سمیت پوری پارلیمنٹ سے درخواست کروں گا کہ اگر ہم واقعی خود کو ایک جمہوری اور آئینی ریاست بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زبان کو بھی اسی معیار پر پرکھنا ہو گا جس میں آئین شہری کو حقوق دیتا ہے خیرات نہیں۔ قانون شہری کو فریق مانتا ہے فقیر نہیں۔ پھر سرکاری زبان کیوں اس کے برعکس تصویر پیش کرے؟ یہ تضاد نہ صرف اخلاقی ہے بلکہ فکری بھی ہے جو آہستہ آہستہ ریاست اور شہری کے درمیان فاصلہ بڑھاتا ہے۔
اصلاح کا عمل کسی بڑے انقلاب کا محتاج نہیں۔ صرف اتنا کافی ہے کہ محکمے اپنی دفتری خط و کتابت کا ازسرِنو جائزہ لیں۔ اسی طرح ہم میڈیا والوں خصوصاً اخبارات اور کالم نگاروں کی ذمہ داری بھی بنتی ہے کہ وہ سرکاری اصطلاحات کو خود بغیر سوچے سمجھے دہرانے کے بجائے حکومت وقت پر بھی زور دیں کہ خدارا چاہے نام نہاد ہی سہی اب تک تو آزاد ہوئے ستر سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب تو ذہنی غلامی ختم کرنے کے جدید طریقوں سے استفادہ حاصل کیا جائے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم نے اپنی زبان درست کر لی تو ممکن ہے ہمارے رویّے بھی درست ہونا شروع ہو جائیں۔ اور شاید یہی وہ پہلا قدم ہو جو ہمیں ایک باوقار اور عوامی ریاست کی طرف لے جائے۔
واپس کریں