دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"پی پی 87 میانوالی ضمنی الیکشن، ایک کانٹے دار مقابلہ ہو سکتا ہے "
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
میانوالی کے حلقہ پی پی 87 کی سیاست ایک نئی کروٹ لینے جا رہی ہے۔ حالیہ دنوں اس حلقہ سے منتخب ہونے والے ممبر صوبائی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر احمد خان بھچر کو دہشت گردی کی عدالت سرگودھا کی جانب سے 10 سال قید کی سزا سنائی گئی جس کے نتیجہ میں وہ اپنی نشست سے بھی نااہل ہو چکے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے اس نشست پر ضمنی انتخابات کے لیے شیڈول جاری کر دیا ہے جس کے مطابق امیدوار 4 سے 6 اگست تک کاغذاتِ نامزدگی جمع کرا سکیں گے جبکہ 9 ستمبر کو ووٹنگ ہو گی۔ سیاسی درجہ حرارت بڑھ چکا ہے تمام بڑی جماعتیں متحرک ہو چکی ہیں خاص طور پر مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین سخت مقابلہ متوقع ہے۔ لیکن یہ بات بھی واضح ہے کہ اس مقابلہ کی نوعیت کا انحصار ہر جماعت کی جانب سے دیئے جانے والے ٹکٹ پر ہو گا۔ حلقہ پی پی 87 بنیادی طور پر پاکستان تحریک انصاف کا گڑھ رہا ہے۔ 2018 میں احمد خان بھچر بلا مقابلہ منتخب ہوئے جبکہ 2024 میں وہ ایک لاکھ سات ہزار ووٹ لے کر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ ان کے مدمقابل مسلم لیگ ن کے امیدوار انعام اللہ خان نیازی صرف 13,465 ووٹ لے سکے، جبکہ ایک آزاد امیدوار ملک سجاد بھچر 15,691 ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ ٹی ایل پی اور پیپلز پارٹی کے ووٹ بینک کی حیثیت اس حلقے میں برائے نام ہی رہی ہے۔ اس صورتحال میں پی ٹی آئی کے جس امیدوار کو بھی ٹکٹ دیا جائے اس کی کامیابی کے امکانات بہت زیادہ ہوں گے۔ اندازہ ہے کہ پارٹی یا تو احمد خان بھچر کے خاندان کے کسی فرد کو ٹکٹ دے گی یا ملک پرویز اموی ایڈووکیٹ جیسے تجربہ کار رہنما کو۔ دونوں صورتوں میں ووٹ بنک بدستور برقرار رہے گا۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کو اگر اس سیٹ پر سنجیدگی سے جیتنے کی خواہش ہے تو اسے نہ صرف ایک موزوں امیدوار کا انتخاب کرنا ہو گا بلکہ اپنے تمام دھڑوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا بھی ہو گا۔ انعام اللہ خان نیازی نے میڈیا کے ذریعے ن لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے تاہم ان کی سیاسی روش ایسی رہی ہے کہ اگر پارٹی ٹکٹ نہ دے تو وہ آزاد حیثیت میں بھی میدان میں آسکتے ہیں۔ اسی طرح ن لیگ سوشل میڈیا ونگ کے راہنما آفتاب نیازی نے بھی اعلان کیا ہے کہ انھوں نے ٹکٹ کیلئے پارٹی کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ بہت نتیجہ خیز ملاقات کی ہے اور انھیں پارٹی ٹکٹ کی بہت امید ہے۔ ایک اور ممکنہ امیدوار علی حیدر نور خان بھی ہیں جو شادی خیل گروپ کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حمیر حیات خان روکھڑی مرحوم کی وفات کے بعد روکھڑی اور شادی خیل گروپ کے تعلقات کافی خوشگوار ہیں اور اطلاعات کے مطابق ان دونوں گروپوں کی مشاورت سے حمیر حیات خان روکھڑی کی بیٹی ہیں زینب ایڈووکیٹ کو امیدوار بنانے پر غور کیا جا رہا ہے۔ حقائق کے مطابق نہ صرف ان کا سیاسی ورثہ مضبوط ہے بلکہ والد کی ناگہانی موت کے بعد ہمدردی کا عنصر بھی ان کے حق میں جائے گا تاہم اس حکمتِ عملی کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کیا روکھڑی گروپ کی اہم شخصیت عادل عبداللہ روکھڑی، جو اس وقت علاج کی غرض سے بیرون ملک موجود ہیں اس فیصلہ سے متفق ہوں گے یا نہیں؟ میری ذاتی رائے میں اگر مسلم لیگ ن شادی خیل گروپ، انعام اللہ خان نیازی، علی حیدر نور خان اور عادل عبداللہ روکھڑی کو جہاں زینب ایڈووکیٹ پر راضی کر لے تو یہ مقابلہ غیر معمولی طور پر کانٹے دار بن سکتا ہے۔ خاص طور پر وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی طرف سے ایک خاتون امیدوار ہونے کے ناطے جہاں زینب ایڈووکیٹ کو ممکنہ سیاسی حمایت بھی مل سکتی ہے۔ ٹکٹ شہر جہاں زینب ایڈووکیٹ کو دینے سے چاہے جو بھی جیتے اس بار میانوالی کے عوام کو ایک دلچسپ، سنجیدہ اور سیاسی طور پر اہم انتخابی معرکہ دیکھنے کو ضرور ملے گا ورنہ ماضی قریب میں پی ٹی آئی کے مقابلہ میں ن لیگ کا ووٹ بنک ضلع کے تمام حلقوں میں بہت تیزی کے ساتھ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن آخر پر میں آپ کو یہ بھی بتا دوں کہ پاکستان میں سیاسی پارٹیاں میرٹ پر ٹکٹ دینے کی بجائے تعلقات کو ترجیح دیتی ہیں جس کی وجہ سے پارٹیوں میں آئے روز توڑ پھوڑ کا سلسلہ جاری رہتا ہے کیونکہ جس امیدوار کو میرٹ پر پارٹی ٹکٹ نہ ملے وہ دل برداشتہ ہو کر پارٹی کو خیرباد کہہ دیتا ہے اور پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ اس مرتبہ بھی دونوں پارٹیوں کی طرف سے ٹکٹ میرٹ پر نہیں دیا جائے گا بس اس سے آگے میں کچھ نہیں کہہ سکتا ۔۔
واپس کریں