دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"پنجاب کی ٹریفک مہم، اصلاح یا انتقام؟
عصمت اللہ نیازی
عصمت اللہ نیازی
وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے احکامات کے بعد حسبِ روایت آئی جی پنجاب نے تمام دیگر امور ایک طرف رکھ کر فوراً ان فرامین کی بجا آوری کے احکامات صادر کر دیے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ دو دن سے پنجاب پولیس یوں سڑکوں پر متحرک ہے کہ منظر کسی معمول کی کارروائی کے بجائے ایک جنگی محاذ کا سا دکھائی دیتا ہے۔ ہر تھانہ کی حدود میں گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور شہریوں کی طویل قطاریں لگی ہیں۔ اگر یہی صورت حال چند روز اور برقرار رہی تو شاید پولیس کو ان ضبط شدہ گاڑیوں کے لیے یا تو زمین ٹھیکے پر لینا پڑے گی یا پھر اپنی پرانی عادت کے مطابق کسی کی زمین پر قبضہ کرنا پڑے گا۔ مجھے ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ ہر تھانے میں عملہ گزشتہ دو راتوں سے صرف ٹریفک خلاف ورزیوں کے چالان مکمل کرنے اور ایف آئی آرز کے ضمنے لکھنے میں مصروف ہے۔ نتیجتاً تھانے کے باقی تمام معاملات تقریباً مفلوج ہو چکے ہیں۔ یہ تو پہلا مرحلہ ہے اور جب دوسرا مرحلہ شروع ہو گا جب سینکڑوں چالان عدالتوں میں پیش ہوں گے جہاں پہلے ہی بے شمار مقدمات زیرِ التوا ہیں وہاں یہ نیا بوجھ عدالتی نظام کو مزید سست کر دے گا۔ حکومت کا مقصد بظاہر درست ہے کہ شہریوں کو ٹریفک قوانین کا پابند بنانا، لائسنسنگ کے عمل کو سنجیدہ کرنا، ہیلمٹ کے استعمال کو عام کرنا اور روڈ حادثات میں انسانی جانوں کے ضیاع کو کم کرنا۔ اور ساتھ ہی جرمانوں کی مد میں سرکاری خزانے کو بھی فائدہ پہنچانا۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا کسی نوجوان کے خلاف ہیلمٹ نہ پہننے یا لائسنس نہ رکھنے پر ایف آئی آر درج کر دینا اس مشکل کا مستقل حل ہے؟ کیا عدالت سے جرمانہ ہونے کے بعد وہ نوجوان لازماً ہیلمٹ خرید لے گا یا لائسنس بنوا لے گا؟ غالب امکان یہی ہے کہ سختی کے باوجود بنیادی مسئلہ اپنی جگہ برقرار رہے گا۔ دوسری طرف حکومت ایک بار پھر ڈنڈے کی پالیسی اپنا کر یہ ثابت کر رہی ہے کہ اسے طاقت کے استعمال میں زیادہ سہولت محسوس ہوتی ہے بجائے اس کے کہ وہ عقل مندی سے عوام کو قانون کے قریب لائے۔ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہوتی تو نوجوانوں پر ایف آئی آرز کی صورت میں مستقبل کے دروازے بند کرنے کے بجائے ایک سادہ، قابلِ عمل اور فوری حل اپناتی مثال کے طور پر ہر ناکے پر پولیس کے ساتھ لائسنس بنانے والی موبائل ٹیم موجود ہوتی جس شہری کے پاس ہیلمٹ نہ ہوتا اس سے موقع پر جرمانہ لے کر اسے ہیلمٹ فراہم کر دیا جاتا اور جس کے پاس لائسنس نہ ہوتا اس سے شناختی کارڈ لے کر وہیں فیس وصول کی جاتی اور فوری طور پر لائسنس بنا دیا جاتا۔ اگر حکومت ایسا کرتی تو نہ صرف ریونیو میں اضافہ ہوتا بلکہ چند ہی ہفتوں میں ہر موٹر سائیکل سوار کے پاس ہیلمٹ بھی ہوتا اور لائسنس بھی۔ مگر افسوس کہ ہمارے معاشرتی رویے اور انتظامی روش اس کے برعکس ہیں ہم طاقت کو اولین ترجیح دیتے ہیں اور عقل کو ثانوی۔ ہم نفسیاتی طور پر اس قدر اقتدار کے اسیر ہیں کہ اختیار ملتے ہی باؤلے پن کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں نتیجتاً ہم زمینی حقائق، سماجی نفسیات اور تدریجی اصلاح کے اصولوں پر آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ یہاں یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ ترقی یافتہ ممالک میں قوانین کے نفاذ کا طریقہ مختلف ہے۔ وہاں معاشرہ پڑھا لکھا، نظم و ضبط سے آشنا اور قانون کا احترام کرنے والا ہے۔ ہمارے جیسے معاشرے میں تبدیلی تدریجاً لائی جاتی ہے اچانک نہیں۔ ایک نوٹیفکیشن سے حالات بدل جانا صرف کتابوں میں اچھا لگتا ہے زمین پر نہیں ۔لہٰذا میری گزارش ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور ڈی پی او میانوالی سمیت تمام اعلیٰ حکام اس پالیسی پر نظرِ ثانی کریں۔ شہریوں کو حوالات میں ٹھونسنے اور مقدمات میں الجھانے کے بجائے موقع پر ہی زیادہ سے زیادہ افراد کو لائسنس اور ہیلمٹ کی فراہمی یقینی بنائیں۔ یہی طریقہ نہ صرف لوگوں کے لیے آسان ہے بلکہ حکومت کے اصل مقصد "جانوں کا تحفظ اور قانون کی پاسداری" کو بھی جلد اور مؤثر انداز میں پورا کرے گا۔
واپس کریں