"نیند میں ڈوبی انتظامیہ اور ضلع میانوالی میں ڈینگی بخار کا خطرہ"
عصمت اللہ نیازی
دنیا بھر کے شعرا نے ساون کے مہینہ کو ایسے رومینٹک انداز میں پیش کیا ہوا ہے کہ دل کرتا ہے ہر سال یہ مہینہ دو مرتبہ آئے لیکن حقیقت میں خاص کر اپنے وطن عزیز میں یہ ہر سال ایک بھیانک شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اس موسم میں ہر طرف نہ صرف حبس سے ہر انسان کی جان نکلتی ہے بلکہ اس کے اختتام پر کئی مہلک اور وبائی بیماریاں سر اٹھا لیتی ہیں جن میں سب سے خطرناک ڈینگی بخار سرفہرست ہے۔ یہ بخار صرف ایک طبی مسئلہ نہیں بلکہ ایک انتظامی نااہلی کا نتیجہ ہے جو ہر سال سینکڑوں قیمتی انسانی جانوں کو نگل جاتا ہے۔ اگر ہم ضلع میانوالی کی بات کریں تو یہاں گذشتہ دو برسوں سے ڈینگی کی وبا نے جس شدت سے حملہ کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ پچھلے سال کے دوران پنجاب میں ڈینگی کے 6,600 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے جن میں میانوالی کے بھی درجنوں مریض شامل تھے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ضلع میانوالی میں 105 سے زائد مقامات ایسے پائے گئے جہاں ڈینگی پھیلنے کے تمام عناصر موجود تھے جن میں کھلے میں کھڑا گندا پانی، پرانی ٹینکیاں، کچرے کے ڈھیر اور صفائی کی کمی شامل ہے۔ یہ تو جھوٹ پر مبنی سرکاری اعداد و شمار ہیں لیکن زمینی حقائق اس سے کہیں زیادہ تھے کیونکہ ضلع میانوالی کے سب سے بڑے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال میں ایک بیڈ بھی خالی نہیں تھا اور ایک موقع پر تو ایک سرکاری ڈاکٹر کو بھی بیڈ نہیں ملا۔ اسی طرح کئی مریض جان بحق ہوئے جن کو سرکاری طور پر اور بیماریوں کے ذمہ لگا دیا گیا جبکہ سینکڑوں مریض کئی ہفتوں تک زیر علاج رہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ محکمہ صحت کے افسران نے آخری وقت تک اوپر سب اچھا کی رپورٹ پہنچائے رکھی۔ حیرانگی اور افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایسی تشویش ناک صورتحال کے باوجود اب دوبارہ محکمہ صحت کی انتظامیہ ستو پی کر سو رہی ہے اور ایک مرتبہ پھر ڈینگی کے حملہ آور ہونے کا انتظار کر رہی ہے جبکہ دوسری جانب اگر ہم لاہور جیسے شہروں کی بات کریں تو وہاں کی ضلعی انتظامیہ نے ابھی سے کمر کس لی ہے ہے اور ڈینگی وائرس کو روکنے کیلئے نہ صرف جگہ جگہ اسپرے ہو رہے ہیں بلکہ اینٹی ڈینگی ٹیمیں گلی گلی گھوم رہی ہیں، دکانوں اور گھروں کی چیکنگ کی جا رہی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر رپورٹنگ ہو رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں میرا وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز صاحبہ سے ایک معصومانہ سا سوال ہے کہ کیا میانوالی کے لوگ انسان نہیں؟ کیا ان کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں؟ اور اس وقت تک محکمہ صحت کی طرف سے اینٹی ڈینگی مہم کا باقاعدہ آغاز کیوں نہیں کیا جا رہا؟ آج جب ہم 5 اگست ہو چکا ہے لیکن ابھی تک میانوالی میں نہ کوئی واضح اینٹی ڈینگی مہم شروع ہوئی ہے، نہ اسپرے کیا جا رہا ہے، نہ کوئی چیکنگ ہو رہی ہے، اور نہ ہی عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے کوئی عملی اقدام اٹھایا گیا ہے۔ کیا محکمہ صحت ابھی بھی کسی سانحے کا انتظار کر رہا ہے؟ کیا پھر وہی پرانا تماشا چلے گا؟ کہ جب مریضوں کی قطاریں لگیں گی، تب بھاگ دوڑ شروع کی جائے گی؟
ہم وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف اور ڈپٹی کمشنر میانوالی جناب خالد جاوید گورایہ سے پرزور اپیل کرتے ہیں کہ وہ فوری طور پر محکمہ صحت کو اینٹی ڈینگی مہم شروع کرنے کے سخت احکامات جاری کریں۔ بصورتِ دیگر یہ خاموشی اور سستی آئندہ آنے والے کچھ دنوں میں ایک بڑے بحران کو جنم دے سکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو اس کی مکمل ذمہ داری محکمہ صحت اور ضلعی انتظامیہ پر عائد ہو گی۔ یاد رکھیں ڈینگی کو روکنے کا واحد راستہ احتیاط، بروقت اقدام اور عوامی آگاہی ہے۔ اگر آج غفلت برتی گئی تو کل ہم صرف افسوس ہی کر سکیں گے اور ہماری انتظامیہ اوپر سب اچھا کی روایتی رپورٹ دے رہی ہو گی جبکہ ہسپتالوں میں تل دھرنے کی جگہ بھی نہیں ہو گی اور شاید محکمہ صحت میانوالی کے ذمہ داران چاہتے بھی یہی ہیں کہ ایسی صورتحال پیدا ہو تو ان کی بھی روٹی روزی چلے ۔۔۔
واپس کریں