عصمت اللہ نیازی
گذشتہ دنوں پنجاب کے وزیرِ تعلیم کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ ایک استاد کو ضلع میانوالی میں سی ای او ایجوکیشن تعینات کر کے کہہ رہے تھے کہ میانوالی کے اساتذہ کی چیخیں نکلوا دینا۔ اگر غور کریں تو یہ بات محض ایک ویڈیو کا جملہ نہیں بلکہ ہمارے مجموعی قومی رویے کی جھلک ہے۔ اس ملک میں ڈنڈے کے زور پر رائے مسلط کرنا کوئی نئی روایت نہیں۔ پاکستان میں ڈنڈے کا استعمال ریاست سے لے کر سماج تک اس طرح رچ بس چکا ہے جیسے یہ نظم و ضبط نہیں بلکہ طاقت اور کنٹرول کا واحد موثر ذریعہ ہو یہ رویہ صرف حکومتی اداروں میں نہیں بلکہ گھروں، سکولوں، دفاتر، سیاست اور قانون نافذ کرنے والے اداروں میں جڑ پکڑ چکا ہے کہیں اسے اصلاح کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے اور کہیں طاقت کے اظہار کا وسیلہ۔ مگر اس کا نتیجہ ہمیشہ ایک سا نکلتا ہے نفسیاتی خوف، انتقامی سوچ اور اجتماعی بگاڑ۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں ڈنڈے کے استعمال میں یہ غیر فطری لطف کیوں محسوس ہوتا ہے؟ یقیناً اس کی جڑیں ہمارے بچپن کے تجربات میں پیوست ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں بچے کی پہلی درسگاہ چاہے وہ گھر ہو یا سکول اسے مکالمہ سے زیادہ ڈنڈے کی زبان سمجھائی جاتی ہے۔ پہلی جماعت سے ہی بچے کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ غلطی کی معافی دلیل سے نہیں بلکہ چھڑی سے ملتی ہے۔ استاد ہاتھ میں چھڑی پکڑے کھڑا ہو تو چھوٹے ذہن کی توجہ کتاب سے نہیں بلکہ اس چھڑی سے وابستہ خوف سے بندھی رہتی ہے۔ ایسے ماحول میں تعلیم کا مقصد علم نہیں بلکہ اطاعت اور تابع داری ہوتا ہے۔ گھر میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں۔ والدین اکثر بچوں کی تربیت کو سختی سے جوڑ دیتے ہیں۔ محبت بھرے مکالمے، پیار سے سمجھانا اور ذہنی تربیت یہ تمام طریقے کمزوری سمجھے جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ایک ایسی نسل پروان چڑھتی ہے جو یہ مان کر جوان ہوتی ہے کہ طاقت کے بغیر بات نہیں مانی جاتی، اختلاف رائے غلطی ہے اور سوال پوچھنا بے ادبی۔ اور یہی ذہن سازی بڑے ہو کر ادارے اور معاشرہ تشکیل دیتی ہے اور ان اداروں کو چلانے والے ذمہ داران پھر ایسی حرکات کرتے نظر آتے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں ہمارا قومی نشان ڈندا ہی رہا ہے اور اقتدار میں بیٹھے لوگ اسے اپنی قوت کا مظہر سمجھتے ہیں۔ ہمارے ہاں اختلافِ رائے کو کبھی سیاسی حق تسلیم ہی نہیں کیا گیا اسی لئے یہاں اختلاف کرنے والا مخالف نہیں بلکہ دشمن سمجھا جاتا ہے۔ اپنے سے کمزور اور مخالفین کی بے عزتی کو کامیابی سمجھا جاتا ہے اور یہ عمل معاشرے کی اخلاقی گراوٹ اور ذہنی پسماندگی کی بدترین شکل ہے۔ جب کسی کی چیخوں کو اپنی قابلیت سمجھا جانے لگے تو سمجھ لیں کہ معاشرہ تباہی کی سرحد پار کر چکا ہے۔ ہماری مجموعی نفسیات اس نہج پر آ چکی ہے کہ دلیل کی کوئی ضرورت نہیں، نرم لہجہ کمزوری کی علامت ہے اور سوال پوچھنے والا گستاخ جبکہ حق مانگنے والا باغی سمجھا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ جہاں ڈنڈا غالب ہو وہاں عقل اور دلیل کے راستے بند ہو جاتے ہیں پھر فیصلے انصاف پر نہیں بلکہ طاقت کے بل بوتے پر ہوتے ہیں اور قانون کی حکمرانی کی جگہ خوف کی حکمرانی لے لیتی ہے۔ اور جس معاشرہ میں خوف سے فیصلے ہوں وہاں ترقی کا راستہ ہمیشہ بند رہتا ہے اور خدا گواہ ہے کہ یہی کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔ لیکن اس ملک میں طاقت اور ڈنڈے کا کلچر محض ایک رویہ نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی بیماری ہے اور جب تک ہم خاندان، تعلیمی اداروں، ریاستی ڈھانچوں اور سیاست میں گفتگو، برداشت، قانون کی بالادستی اور احترام کو ترجیح نہیں دیتے تب تک ڈنڈا ہماری نفسیات اور نظام دونوں پر حکومت کرتا رہے گا اب فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ ہم ڈنڈے کے زور پر چلنے والی قوم رہنا چاہتے ہیں یا دلیل پر کھڑا ہوا معاشرہ بننا چاہتے ہیں؟ اور یہی سوال ہمارے آج اور آنے والے کل کا فیصلہ کرے گا۔
واپس کریں