عصمت اللہ نیازی
اپنے گزشتہ کالم مِیں میں نے صوبائی حکومت کے ذمہ داران کے سامنے ایک نہایت معمولی مگر مفید تجویز رکھی تھی کہ ریاست اگر واقعی اپنے نئے ٹریفک قوانین پر عملدرآمد چاہتی ہے تو عوام پر چالانوں اور ایف آئی آرز کی یلغار کرنے کی بجائے شہریوں کو ہیلمٹ اور ڈرائیونگ لائسنس کی فراہمی کو آسان اور یقینی بنائے۔ مگر روایت کے مطابق اس تجویز کو بھی شاید وہی انجام ملے گا جو اس ملک میں ہر مثبت اور عوام دوست رائے کا ہوتا ہے کیونکہ اختیار رکھنے والا شخص خود کو عقلِ کل سمجھنے کا عادی ہوتا ہے۔ خیر اب میں صوبائی حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے نئے "پرویزنل موٹر وہیکل آرڈیننس 2025" کی چند اہم شقیں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تاکہ عوام لاعلمی میں ایسے قانونی جال میں نہ پھنسیں جس سے نکلنا مشکل ہو جائے
اس آرڈیننس کی سب سے اہم شق 98- اے ہے جس کے تحت چاہے آپ موٹر سائیکل چلا رہے ہوں، رکشہ، کار، ٹرک یا ٹریلر، بغیر لائسنس ڈرائیونگ پر نہ صرف چالان ہو گا بلکہ ایف آئی آر بھی درج ہو گی۔ جس کی سزا چھ ماہ تک قید، جرمانہ، یا دونوں ہو سکتے ہیں۔ شق 99- بی کے مطابق اگر کوئی کم عمر بچہ گاڑی یا موٹر سائیکل چلاتا پکڑا گیا تو صرف بچے پر نہیں بلکہ اس کے والدین پر بھی ایف آئی آر درج ہو گی جس کی وجہ سے سزا بھی دونوں کو مل سکتی ہے۔ سیکشن 105 کے تحت گاڑی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی چاہے رنگ بدلنا ہو، انجن تبدیل کرنا ہو یا پھر باڈی میں رد و بدل ہو یہ سب قابلِ گرفت جرم ہے۔ اور اس پر ایف آئی آر بھی ہو گی اور سزا بھی چھ ماہ سے زائد ہو سکتی ہے۔ سیکشن 106- اے کے مطابق موٹر سائیکل ہو یا کوئی بڑی گاڑی فٹنس سرٹیفکیٹ ساتھ رکھنا لازمی ہے۔ جس کی عدم موجودگی میں سیدھی ایف آئی آر درج ہو گی۔ سیکشن 106 بی کے تحت اگر آپ اسکول وین یا کوئی سواریوں والی گاڑی چلا رہے ہیں اور منظور شدہ سیٹوں سے زیادہ افراد بٹھا رکھے ہیں تو یہ بھی قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے جس کا نتیجہ ایف آئی آر کی صورت میں نکلے گا۔ سیکشن 112 اے کے مطابق گاڑی پر پولیس لائٹ، ایمبولینس لائٹ یا کسی سرکاری محکمہ کے سائن بغیر اجازت لگانا بھی جرم ہے اور اس پر فوری ایف آئی آر ہو گی۔ سیکشن 112 ڈی میں گاڑی کی جسامت میں غیر قانونی اضافہ مثلاً سیٹیں بڑھانا، باڈی بڑی کرنا، رکشہ میں زیادہ نشستیں لگانا، سب پر ایف آئی آر ہو گی جس کی وجہ سے آپ جیل کی ہوا کھائیں گے ل۔ سیکشن 112 ای کے مطابق بغیر اجازت گاڑی پر کالے شیشے لگانا بھی قابلِ گرفت جرم ہے۔ اور اگر آپ کے پاس شیشے کالے کرنے کا سرکاری پرمٹ موجود نہیں تو ایف آئی آر کیلئے ہر وقت تیار رہیں۔ سیکشن 89 اے کے تحت اب تین پہیوں والی گاڑیاں جیسے آٹو رکشہ، چنگ چی، لوڈر رکشہ اور معذور گاڑی ان سب کے ڈرائیور کے لیے بھی ہیلمٹ لازمی ہو گا ہیلمٹ نہ ہونے کی صورت میں چاہے آپ غریب ہوں یا معذور آپ کے خلاف ورزی پر ایف آئی آر درج ہو گی۔ اسی طرح سیکشن 89 بی کے مطابق کسی بھی گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے والا شخص بھی سیٹ بیلٹ باندھنے کا پابند ہے۔ چاہے آپ اپنی ذاتی گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھے ہوں یا پھر کسی پبلک ٹرانسپورٹ میں بیٹھے ہوں اگر سیٹ بیلٹ نہ لگایا تو سیدھا مقدمہ درج ہو گا۔
یوں لگتا ہے کہ نئے آرڈیننس کے تحت شہری اب مکمل طور پر ٹریفک پولیس اور تھانہ کلچر کے رحم و کرم پر ہوں گے۔ صورتحال دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے حکومت نے شہریوں کے لیے ٹریفک قوانین نہیں بلکہ ایف آئی آرز کا پورا پیکج تیار کر دیا ہے۔ ایسے میں بہتر یہی ہے کہ یا تو لوگ پیدل چلنے کی روایت دوبارہ زندہ کر لیں تاکہ زمانہِ قدیم کی طرح صحت بھی اچھی رہے اور جیل جانے سے بھی بچے رہیں یا پھر ہر وقت مکمل تیاری کے ساتھ گھروں سے نکلیں۔
اس ساری صورتحال پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے کہ کسی گاؤں کی مسجد میں جمعہ کے خطبہ میں مولوی صاحب پل صراط کی باریکی اور تیزی بیان کر رہے تھے کہ یہ پُل بال سے پتلا ہو گا اور تلوار سے بھی تیز ہو گا ۔ مسجد میں بیٹھے ایک بزرگ سے برداشت نہ ہوا تو اس نے کھڑے ہو کر مولوی سے کہا کہ "حضور پھر یہ فرمائیں کہ گزرنے کا راستہ نہیں ہے۔۔
واپس کریں