دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
وہ کس جرم میں مارا گیا؟
طاہر سواتی
طاہر سواتی
بارہ سالہ فرحان خوازہ خیلہ چالیار کے مدرسہ محزن العلوم میں گزشتہ چار سال سے زیر تعلیمُ تھا۔دینی مدرسے میں پڑھنے کی وجہ غربت نہیں بلکہ مولویوں کی پھیلائی ہوئی وہ جہالت تھی ، جس کی بنا پر ہر باپ بیٹے کی ٹکٹ پر جنت جانا چاہتا ہے ۔ اس کا باپ بھی ماہانہ پانچ ہزار فیس ادا کرکے بیٹے کے کندھوں پر سوار ہوکر پل صراط پار کرنے کا متمنی تھا۔لیکن وہ بھول گیا تھا کہ اس کے بچے کے ناتواں کندھوں پر پہلے مولوی سواری کریگا۔
شہادت سے چار دن قبل جب فرحان چھٹی پر آیا ، تو اس نے گھر والوں کو بتایا کہ وہ اس مدرسے میں واپس جانا نہیں چاہتا کیونکہ مہتم کا بیٹا اسے جنسی خواہشات پوری کرنے کے لئےمجبور کررہا ہے۔لیکن کسی نے اس کی بات کا یقین نہیں کیا ۔۲۱ جولائی کو چچا خود اسے دوبارہ مدرسے چھوڑنے گیا،وہاں پر مہتمم محمد عمر، اُن کے بیٹے احسان اللہ اور مدرسے کے ناظم عبداللہ نے قران پر ہاتھ رکھ کر اور قسمیں کھا کر یقین دلایا کہ ایسا کچھ نہیں ہے اور بچہ پڑھائی سے بھاگنے کے بہانے بنا رہا ہے۔اس دوران سعودی عرب میں مقیم فرحان کے باپ نے بھی ان سے ویڈیو کال کے ذریعے بات کی ،
ان سب نے اسے تسلی دی کہ ہم اپنے سگے بچوں سے زیادہ اس کاٗ خیال رکھتے ہیں ۔لیکنُ جوں ہی اس کا چچا واپس گھر روانہ ہوا تو مہتم ، اس کے بیٹے اور ناظم نے فرحان کو ایک کمرے میں بند کرکے اس پر لاٹھیوں اور زنجیروں سے تشدد شروع کر دیا، جب ایک وحشی تشدد کرکے تھک جاتا تو دوسرا شروع ہوجاتا ،اس دوران جب فرحان پانی مانگتا تو یہ یزید کی اولاد دوسرے بچوں سے کہتے کہ اگر اسے پانی لا کر دیا تو تمہارا بھی یہی حشر ہو گا۔‘
کئی گھنٹوں کے تشدد کے بعد جب وہ بیچار نڈھال ہوا تو اسے ایک دوسرے بچے کے حوالے کردیاگیا ، اس بچے نے ہمت کرکے اسے پانی کے قطرے پلانے کی کوشش کی لیکن اس وقت تک وہ ہر جبر و ظلم سے آزاد ہوکر اپنے رب کے حضور پہنچ چکا تھا ۔
لیکن یزدیت پھر بھی ننگی ناچتی رہی ، اس کی لاش کو ٹھوکریں مارتے ہوئے یہ وحشی باقی بچوں ڈراتے رہے کہ جو زبان کھولے گا اس کا انجام یہی ہوگا ۔
اور پھر سچے مذہب کے ان دعویداروں نے فرحان کے چچا کو فون پرُ اطلاع دی کہ وہ غسلخانے میں گِر کر ہلاک ہو گیا ہے۔
لیکن سوائے چہرے کے اس کے پورے بدن پر زخموں کے نشان تھے ۔ اہلُ علاقہ کے احتجاج پر جب مدرسے کو بند کرکے طلبہ سے پوچ کچھ کی گئی تو درجن بھر کے قریب طلبہ کے جسموں پر تشدد کے نشانات ملے ۔ اہل علاقہ کے ایک بزرگ کے بقول جب وہ مدرسے میں داخل ہوئے تو بچے اس سے لپٹ کر چیخنے لگے کہ ہم بچا لو یہ ہمیں مار دیں گے ۔
فرحان اس راستے کا پہلا بچہ ہے اور نہ ہی آخری کل ہی صوابی میں ایک چھ سالہ بچہ مولوی کا نشانہ بنا ہے۔
فرحان کی شہادت کو آج پانچواں دن ہے اس دوران میں انتظار کرتا رہا کہ کوئی مولوی اس کی مذمت کردےگا کوئی مذہبی جماعت احتجاج کی کال دے دیگی لیکن ہر طرف مکمل خاموشی ہے ۔ لیکن جوں ہی حکومت نے مدرسوں کی اصلاح کی کوئی کوشش کی تو یہ دیوبندی ، بریلوی حتی کہ شیعہ فضل الرحمان کی قیادت میں تحفظ مدارس کے نام پر تحریک شروع کردیں گے ،
یہ وہ مافیا ہے جس کی جڑی بہت گہری ہیں ۔ جو حکومت ان کو وزارت تعلیم کے تحت رجسٹریشن پر مجبور نہ کرسکی وہ اس مافیا کو اور کیا لگام ڈال سکتی ہے۔
آج کل اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیہ ایک فیشن بن چکا ہے۔
جرنیلوں کے خلاف میں بھی بولتا ہوں ، آپ بھی بولتے ہیں ، فضل الرحمان بھی بولتا ہے اور عمران بھی ۔ لیکن یہ وہ خطرناک مافیا ہے جن کی ڈر کی وجہ سے باجوہ جیسے طاقتور جرنیل کو بھی گھر میں محفل میلاد کا اہتمام کرنا پڑا ۔
جب تک عوام خود ان کے تقدیس کا بت پارہ پارہ نہیں کرتی کوئی بھی حکومت انہیں کنٹرول نہیں کرسکتی ۔ سر دست حکومت صرف دوکام کرکے بچوں کو جسمانی اور جنسی تشدد سے نجات دلا سکتی ہے ۔
پہلا کام یہ کہ ہر مدرسے میں سی سی ٹی وی کیمرے لگوائیں جائیں ،
دوسرا مدارس میں ہاسٹل کا نظام مکمل طور پر ختم کرکے عام اسکولوں کی طرح دو بچے چھٹی ہو۔جو طلبہ دور دراز علاقوں سے آتے ہوں وہ پرائیوٹ ہاسٹلز میں رہائش اختیار کیا کریں ۔
فرحان اس دنیا کا تنہا بچہ تھا جس کی اس دنیا میں سوائے رب کے کوئی بھی نہیں تھا ، آپ ذرا تصور کریں کہ جس بچے کے ماں باپ اس کا درد سننے کی بجائے ایسے وحشیوں کی طرف داری کریں وہ کس کرب سے گزر رہا ہوگا ۔میں تصور میں محشر کا وہ منظر دیکھ رہا ہوں جب فرحان رب کے حضور شکایت لیکر اآئیگا کہ
“ میں کس جرمُ میں مارا گیا “
جو مذہبی درندے ایسے جرائم میں ملوث ہیں انہوں تو اس کا کوئی جواب تلاش کیا ہوگا ۔
لیکن میرے اور آپ جیسے ان کے حمایتی کیا جواب دیں گے ؟
سوچئے اور ذرا مجھے بھی بتا دیجئے ۔
واپس کریں