دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
پاکستان کا مصالحتی کردار (ماضی کے دریچے سے )
طاہر سواتی
طاہر سواتی
جب صدام نے کویت پر قبضہ کیا تو الباکستانیوں نے اسے صلاح الدین ایوبی بنادیا کیونکہ اس نے چند کروز میزائل اسرائیل کی جانب بھی پھینکے تھے۔ اس وقت نوازشریف نے مصالحتی کردار ادا کرتے ہوئے مسلئے کو بات چیت سے حل کرنے کی کوشش کی لیکن صدام حسین کسی اور ہواؤں میں تھا۔ اس زمانے میں ابو کے چند جماعتی دوست ہمارے بیٹھک میں نوازشریف کا مذاق آڑاتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ “نوازشریف نے جب صدام حسین سے مصالحت کے لئے رابط کیا تو اس شیر جوان نے کہا کہ جنگ مردوں کاکام ہے، آپ جیسے خسرے جس کی نہ مونچھیں ہیں نہ داڑھی وہ کیا مصالحت کریں گے”اور پھر وہ مونچھوں والا شیر ایک زیر زمین بنکر میں گیدڑ کی طرح چھپا ہوا ملا ۔مشرف نے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ“ کھٹمنڈو میں اپنی نشست سے اٹھ کرُ واجپائی سے ہاتھ ملانا اور افغان تالبان کی حمایت سے ہاتھ کھینچنا میری زندگی کے دو مشکل ترین فیصلے تھے “
اس وقت پاکستان نے بڑی کوشش کی لیکُن امیر المومنین کا ایمان ہمالہ سے بلندُ اور ہیرے سے سخت تھا۔ حالانکہ امریکہ کا مطالبہ صرف ۹۱۱ میں مطلوب شیخ اور اس کے ساتھیوں کے حوالگی سے متعلق تھا ۔ پھر نہ امیر رہا نہ شیخ اور افگانستان کھنڈرات میں تبدیلُ ہو گیا ۔ آج وہی تالب آدھی تنخواہ پرُ گزارا کررہے ہیں ۔ پوری دنیا کے فتح کے دعویدار آج الگ تھلگ بیٹھے صرف اپنی عوام کو ہی جت رہے ہیں ۔
یہی کام اسُوقت کرلیتے تو کتنی جانیں بچ سکتی تھیں ۔
اوبامہُ انتظامیہ نے جب ایران پرُ سے پابندیاں ہٹا دی تو سپریم لیڈر کی پرواز بھی کچھ اونچی ہو گئی ،عرب بہار کے اس زمانے میں پاسدان انقلاب نے بھی اپنا انقلاب یمن ، بحرین ، شام اور لبنان کو ایکسپورٹ کرنا شروع کردیا ،
ستمبر ۲۰۱۵ کے حج کے موقع پر کچھ ایرنی شرپسندوں نے جمرات کے مقام پر گڑ بڑ کی کوشش کی ، جس سے سعودی حکومت کے مطابق 769 جبکہ دیگر ذرائع کے مطابق ڈھائی ہزار اموات ہوئیں ۔
2 جنوری 2016 میں سعودی عرب نے شیعہ عالم شیخ نمر کو اس کے سہولت کاروں سمیت سزائے موت دی ، ان کل 47 افراد میں سے ایک مصر ایک چاڈ جبکہ شیخ نمر سمیت 45 سعودی شہری تھے ۔
لیکن ایران جو اپنے ہاں انقلاب کے بعد ہزاروں شہریوں کے قتل میں ملوث رہا اور اسے داخلی معاملہ قرار دیکر بین الاقومی انسانی حقوق کے تنظیموں کے احتجاج کو رد کرتا رہا ، اس ایران کے پاسدان انقلاب نے ایک سعودی شیعہ عالم کے قتل کا بدلہ لینا کا اعلان کیا ، اور 2 اور 3 جنوری کی رات تہران میں سعودی سفارت خانے کو آگ لگا دی ۔
بھارت میں بھی سعودی کونصلیٹ پر حملہ ہوا ۔
یہ وہ لمحہ تھا جب ایران اور سعودی عرب جنگ کے دھانے پرُ پہنچ گئے تھے ۔ اس وقت وزیراعظم نوازشریف نے اپنا تاریخی مصالحتی کردار ادا کیا اور چین ، روس اور ترکی کے تعاون سے دونوں برادر ملکوں کے تعلقات کو معمول پرُ لے آئے ۔
لیکن ایرانیوں کے انقلاب کا خمار بڑھتا گیا ، متعدد بار انہوں نے سعودی تیل تنصیاب کو ڈرون سے نشانہ بنانے کی کوشش کی ۔
حالیہ بحران میں پاکستان نے پھر اپنے تاریخی کردار کو دہراتے ہوئے ایک جانب اس مسلئے کے سفارتی حل کی کوشش کی وہاں علی اعلان ایران کی اخلاقی اور سفارتی حمایت بھی جاری رکھی ۔
اس سلسلے میں پاکستان اور قطر نے ملکر ترکیہ کے صدر کو ثالثی پرُ راضی کیا ۔ کیونکہ ترکیہ واحد اسلامی ملک ہے جو تینوں فریقوں امریکہ ، اسرائیل اور ایران سے قریبی تعلقات رکھتا ہے ۔ لیکن جب صدر ٹرمپ بنفس نفیس مذاکرات کے لئے استنبول آنے کے لئے تیار تھے اس وقت سپریم لیڈر اپنے صدر کو بھی دستیاب نہیں تھے ۔
یہ ساری صورت حال چونکہ ایرانی صدر کے سامنے تھی اس لئے اس نے حملوں کے اگلے روز دو بار پاکستان کے وزیر اعظم کو فون کرکے اس کا شکریہ ادا کیا ۔
فرانسیسی صدر یارک شیراک نے ایک بار کہا تھا کہ میں عربوں سے بڑھ کرعرب نہیںُ بن سکتا ،ہم بھی ایرانیوں سے بڑھ کر ایرانی نہیں بن سکتے ،
کمزور پاکستان نے ہمیشہ ایران کے حق میں اپنی حیثیت سے بڑھ کر کردار ادا کیا ہے ۔لیکن جب بھارت نے پاکستان پر 2001 اور 2025 میں جنگ مسلط کی تو ایران کے ملا رجیم کاُ کیا کردار رہا؟حالانکہ ان کے ہندوستان کے ساتھ قریبی تعلقات تھے ۔ وہ بھارت کو کیا روکتے الٹا جنوری ۲۰۲۴ کو انہوں نے ہم پر ہی حملہ کردیا ۔
جس طرح آج پاکستان اپنے پارلیمان سے لیکر اقوم متحدہ کے سلامتی کونسل تک ایران کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہے شاہ ایران کے بعد ایرانی ملاؤں نے اتنی دیدہ دلیری سے کبھی پاک بھارت تنازعہ میں ہمارا ساتھ دیا ہے؟
آخری بات آپ لاکھ کوشش کے باوجود کسی کی اکھڑ ختم نہیں کرسکتے ،اور تاریخ کا فیصلہ یہی ہے کہ جس شاخ میں لچک ختم اور اکھڑ پیدا ہو وہ جلد ہی ٹوٹ جاتی ہے ۔
واپس کریں