دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
“ امریکی حملہ اور ہمارا چورن”
طاہر سواتی
طاہر سواتی
مقامی وقت کے مطابق رات ۲:۳۰ پر امریکہ نے ایران کے سب سے بڑے جوہری زیر زمین سائٹ فرود سمیت ناطنز اور اصفہان پر بمباری کی ہے ۔
جیسا کہ کل بتایا تھا کہ امریکہ کے چھ B-2 بمبار طیارے بحرالقیانوس کے مشرقی راستے گوام آچکے ہیں ۔
ان طیاروں نے مسلسل 37 گھنٹے پرواز کرکے اپنے ٹارگٹ کو تباہ کردیا ہے اور اس دوران کئی بار فضا میں ری فیلیونگ کی ہے ۔صرف فردو پر 12 بنکر بسٹرڈ بم گرائے گئے ہیں ۔ امریکہ اور اسرائیل ان تنصیبات کی مکمل تباہی کے دعویدار ہیں جبکہ ایران نے صرف داخلی راستوں کے نقصان کو تسلیم کرلیا ہے ۔
اب ذرا پچھلے ایک ہفتے سے اپنے پاکستانی نیشنل میڈیا اور پھر سوشل میڈیا کے نوے فیصد خبروں پر نظر ڈال دیجئے اور پھر اس ناچیز کی پوسٹوں کو دوبارہ پڑھ لیجئے ۔
کہا تھا نا کچھ بڑا ہونے والا ہے ؟
دو دن قبل خبر دی تھی کہ اس ویک اینڈ پر حملہ متوقع ہے ؟
کل ہی عرض کیا تھا کہ مذاکرات کے منظر نامے سے ہٹ کر بہت کچھ چل رہا ہے ؟
رات کو ہی B-2 کی خبر دی تھی ۔
کئی گھنٹوں کی تحقیق کے بعد چند لائنز مفت میں آپ کی خدمت میں لکھ دیتا ہوں لیکن ہماری قوم کی نفسیات ایسی ہے کہ وہ وہی سننا چاہتی ہے جو اسے پسند ہو ، بیشک وہ سفید جھوٹ کیوں نہ ہو۔
اسی نفسیات کو نیازی اور اس کے یوٹیوبر استعمال کررہے ہیں ۔
اب سب پاکستان کے ٹرمپ کی نوبل انعام کے لئے نامزگی کوس رہے ہیں ،
تو یہ کہانی بھی سن لیجئے ۔
۱۶ جون بروز پیر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ترکیہ کے صدر طیب اردگان کی ایک کال موصول ہوئی جس میں ایرانی صدر اور وزیر خارجہ سے رابط کرکے حالیہ بحران کو ختم کرنے کی تجویز دی گئی ۔
صدر ٹرمپ اس پر بہت خوش ہوئے اور اس نے نہ صرف آمادگی ظاہر کی بلکہ اس نے نائب صدر وینس اور وائٹ ہاؤس کے نمائندے اسٹیو ویکوف کو فوری طور پر استنبول بھیجنے کا بھی عندیہ دے دیا ۔
کچھ دیر کے بعد صدر ٹرمپ نے خود کال کرکے اردگان کو آفر کی کہ اگر مسئلہ بات چیت سے حل ہو سکتا ہے تو وہ خود استبول آنے کے لئے تیار ہیں ۔
اس سلسلے میں جب اردگان نے ایرانی صدر مسعود پیزشکان سے رابطہ کیا تو اس نے بتایا کہُ اس سلسلے میں سارا اختیار سپریم لیڈر کے پاس ہے جس سے موجودہ صورت حال میں رابط ممکن نہیں ۔
اور یوں اردگان نے ٹرمپ کے سامنے معذرت کے ساتھ اس کوشش سے دستبرادی کا اعلان کردیا ۔
خبر کی اندر خبر یہ ہے کہ اردگان کی ساری تگ و دو کا محرک پاکستان تھا ۔ اب نوبل انعام کے لئے نامزدگی سمجھ آگئی؟
جو سپریم لیڈر اپنے صدر سے اجازت نامے کے لئے دستیاب نہیں تھا وہ اب بھڑکیں جاری کررہا ہے۔
سپریم لیڈر اپنے پڑوسی ملا عمر کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں جسے اپنی ذات سے آگے کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا ۔
واپس کریں