طاہر سواتی
دریائے سوات میں ایک ہی خاندان کے 15 افراد دو گھنٹے سیلابی پانی میں مدد کا انتظار کرتے ہوئے آخر قاتل لہروں کی نظر ہو گئے ۔ پاکستانی معاشرے میں یہ کوئی بڑا حادثہ نہیں یہاں تو انسانی جان مرغی سے بھی زیادہ سستی ہے ۔
اس بدقسمت دھرتی پر نہ یہ پہلا حادثہ ہے اور نہ آخری 2022 میں اسی طرح کوھستان میں پانچ بھائی کئی گھنٹے ریسکیو کا انتظار کرتے ہوئے سب کے سامنے دریا میں بہہ گئے تھے۔
اس سے بڑا حادثہ یہ ہے کہ یہ واقعہ ایک ایسے صوبے میں ہوا ہے جہاں کا لیڈر گزشتہ پندرہ برسوں سے ریاست مدینہ کا چورن بیچ رہا ہے ، دریائے فرات کے کنارے پیاس سے مرنے والے کتے کی مثالیں دے رہا ہے۔ جس کا دعویٰ ہے کہ اس دھرتی کا واحد ایماندار انسان صرف وہی ہے، باقی سب چور ڈاکو ہیں ۔
صرف یہی نہیں اس جنت نظیر صوبے کی تعمیر نو میں صالحین کی جماعت کا خون پسینہ بھی شامل ہے ،
گلہ پھاڑ پھاڑ کر تقریریں کرنے والا سراج الحق بھی اسی صوبے کا سینئر وزیر اور وزیر خزانہ رہا ہے ۔
جن کا دعویٰ ہے کہ اگر صالح قیادت موجود ہو تو پلک جھپکتے یہ ملک یورپ اور امریکہ سے آگے نکل سکتا ہے۔
آج چوروں کے صوبے میں مریضوں کو ائر ایمبولینس کی سہولت میسر ہے لیکن صادق آمین کی ریاست مدینہ میں لوگ سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے مررہے ہیں ۔
لیکن اس سے بھی بڑا حادثہ یہ ہے کہ اس نااہلی پر شرمندہ ہونے کی بجائے وزیر اعلی سمیت پوری پارٹی دیدہ دلیری سے اس جرم کا دفاع کررہی ہے۔
جو جنوبی کوریا کے وزیر اعظم کے کشتی ڈوبنے پر مستعفی ہونے کی مثالیں دیا کرتا تھا آج اس کا وزیر اعلی بڑی بیشرمی سے کہتا ہے کہ میں نے کون سا جاکر ان کو تمبو دینا ہوتا ہے۔
اس پارٹی کے پاس اسلام آباد پرُچڑھائی کے لئے ریسکیو کے سو گاڑیاں دستیاب ہوتی ہیں ،قومی خزانے کاُ ہیلی کاپٹر علیمہُ خان کو چترال سے ریسکیو کروا لیتا ہے ، لیکن پندرہ انسانوں کو بچانے کےُ لئے پھر نہ رسی ہوتی ہے اور نہ تمبو ۔
اب پارٹی کا سوشل میڈیا بریگیڈ بڑی دیدہ دلیری سے سارا الزام مرنے والے سیاحوں پر ڈال رہا ہے ،
بیشک یہ سیاح اپنی غلطی سے دریا کے بیچ پھنس گئے تھے لیکن اگر یہ خاندان اجتماعی خود کشی کی کوشش کرتا پھر بھی ان کو بچانا ریاست کی ذمہ داری تھی ۔
اگر دریا کے بیچ غلطی سے گھرے ہوئے اپنے کئے کے خود ذمہ دار ہیں تو پھر خلیفہ وقت نے دریائے فرات کے کنارے پیاس سے مرنے والے کتے کی ذمہ داری اپنے سر کیوں لی ۔ وہ بھی تو پیاس سے مرنے کی بجائے پانی کی دو گھونٹ پی سکتا ہے۔
یورپ کی جس تہذیب کو ہم صبح شام دشنام دیتے رہتے ہیں وہاں خود کشی کی کوشش کرنے والوں کو بچانے کے لئے بھی پورا نظام حرکت میں آجاتا ہے ۔
یہ کافر ریاستیں تو غیر قانونی تارکین وطن کی زندگیاں بچانا بھی اپنا فریضہ سمجھتی ہے۔
ابھی حال ہی میں ایک کافر یورپی ملک کی عدالت نے اپنے کوسٹ گارڈز کو صرف اس لئے سزا دی وہ غیر قانونی تارکین وطن کی ڈوبتی کشتی میں سوار انسانوں کی زندگیاں بچانے میں ناکام رہے ۔
لیکن ان ہی غیر قانونی تارکین وطن باکستانیوں کو جب قانونی حثییت مل جاتی ہے تو پھر انہیں مغرب کا نظام غلیظ لگتا ہے اور یہ لوگ ریاست مدینہ کے قیام کے لئے سرگرم ہوجاتے ہیں ۔ مغربی ممالک میں مقیمُ ۹۰ فیصد پاکستانی نیازی نامی نوسر باز کی صرف اس لیے دیوانی ہے کہ وہ ریاست مدینہ کی بات کررہا ہے۔
لیکن ان سب حادثوں سے بڑا حادثہ یہ ہے کہ آج بھی
طارق جمیل جیسے مولوی اس فتنہ باز کے حمایتی ہیں ،
کہ یہ اس ملک کا واحد مومن بندہ ہے ساری دنیا اس سے خائف ہے کیونکہ یہ ریاست مدینہ کی بات کررہا ہے ۔ شیعہ ہو کہ سنی مذہبی جنونیوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی اس سراب کے پیچھے ہے۔
واپس کریں