دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
مقبول بیانیہ اور ہماری سطحی سوچ
طاہر سواتی
طاہر سواتی
بھارتی نژاد مسلمان نوجوان زہران ہمدانی ڈیموریٹک پارٹی کی جانب سے نیویارک کے مئیرکا انتخاب لڑنے کی نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔لیکن ہماری سطحی سوچ کے دانشوروں کے نزدیک یہ کامیابی امریکی نظام کی خوبی نہیں بلکہ اس کی شکست اور عالم اسلام کی فتح ہے۔
نیویارک امریکہ کا سب سے بڑا شہر ہے ،84 لاکھ نفوس پر مشتمل یہ شہر آبادی کے لحاظ سے اسرائیل کے برابر ہے ۔ امریکہ میں یہودیوں کی سب سے بڑی آبادی یہاں بستی ہے ، یہ 16 لاکھ یہودی امریکہ میں یہودی آبادی کا 22 فیصد ہیں ۔
اب سوشلسٹ نظریات رکھنے والا ایک بھارتی نژاد مسلمان ایسے شہر کا انتظامی مالک بننے والا ہے جو ٹرمپ جیسے صدر کو للکار رہا ہے ، کھل کر اسرائیلی مخالف جذبات رکھتا ہے اور وزیر اعظم نیتین یاہو کی نیویارک آمد پر اس کی گرفتاری کا اعلانات کرتا رہتا ہے۔ یاد رہے نیویارک شہر کی پولیس میئر کے کنٹرول میں ہوتی ہے۔
یہی وہ امریکی نظام ہے جسے ہم سب برا بھلا کہتے ہیں ۔
کیا کوئی مسیحی یا یہودی کسی بھی اسلامی ملک میں کونسلر منتخب ہو سکتا ہے ؟
کیا زہران اپنے آبائی ملک بھارت میں نیو دہلی کا مئیر منتخب ہو سکتا تھا ؟ اور مودی کے گرفتاری کی بھڑکیں مار سکتا تھا ؟
غیر مسلمُ تو دور کی بات ہے آئین کے آرٹیکل ۱۱۵ کے تحت کوئی سنی مسلمان بھی ایران میں صدارتی انتخابات نہیں لڑ سکتا ۔ہمدانُ زہران جیسوں کی فتوحات ایک امریکی آئینی ترمیم کی مار ہے ،
لیکن ہم مسلمان جو پاکستان ، ایران ، افغانستان ، مصر ، شام عراق ،اردن ،یمن ،مراکش ،لبنان ،الجزائر تیونس میں خوش نہیں.
ہم قانونی طریقہ ہو یا کشتیوں میں جان پر کھیل کر ڈنکی لگا کر امریکا، کینیڈا، برطانیہ ، سویڈن، فرانس، آسٹریلیا ، ناروے، ڈنمارک، ہالینڈ، اٹلی،جرمنی جیسے غیر مسلمٗ جمہوری ممالک میں بسنا چاہتے ہیں ،
اور پھر انہی جمہوری نظاموں کے جملہ حقوق حاصل کرکے ہمیں یہ سارے ملک برے لگتے ہیں ، ہمیں ان کی پالیسیوں میں دوغلا پن نظر آتا ہے ،
اپنے اپنے ملکوں میں نافذ شریعتوں کے ان بھگوڑوں کے اندر پھر اسلامی انقلاب کا کیڑا بیدار ہوتا ہے اور وہ انہی ممالک میں شریعت کے نفاذ کے لئے سرگرم عمل ہوجاتے ہیں ۔
پھر ہمارےخوابوں کے شہر ماسکو ، بیجنگ ، تہران اور کابل ہوتے ہیں ۔ ہمیں ہر ڈکٹیٹر اور غاصب اچھا لگتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا مجھے روس ، چین ، افغانستان اور ایران میں امریکہ ،کینڈا ، برطانیہ اور سویڈن جیسے جمہوری حقوق حاصل ہیں ؟
میرا ایک بہت ہی قریبی دوست جو ریاضی جیسے مضمون میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری رکھتا ہے وہ گزشتہ دس برسوں سے چین کی ایک یونیورسٹی میں بطور پروفیسر پڑھا رہا ہے، ایک چینی لڑکی سے شادی کی جس سے تین بچے بھی ہیں ، لیکن تاحال شہریت تو دور کی بات ہے مستقل رہائشی اسٹیٹس بھی نہیں ملا ،
دوسری جانب دس برسوں میں تو اسپین ، پرتگال اور اٹلی جیسے جمہوری ممالک غیر قانونی تارکین وطن کو بھی پاسپورٹ پکڑا دیتے ہیں ۔
برطانیہ میں پلسطین اکشن نامی تنظیم نے پچھلے سال بارک لے بینک کے کئ شاخوں میں توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگائی ، ابھی حال ہی میں رائل ائیر فورس کے دو جہازوں کو نقصان پہنچایا ، لیکن زہرہ سلطانہ برطانوی پارلیمان کے اندر ایسے شدد پسندانہ کاروائیوں کا دفاع کرہی ہے، بلکہ کل اس نے لیبر پارٹی سے مستعفی ہوکر نئے سیاسی پارٹی میں شمولیت کا ڈرامہ رچایا ،
محترمہ کابل میں قابض بندوق برداروں کی بھی فین ہے ۔ محترمہ یہی پینٹ شرٹ پہنے اسی بوائے کٹ کے ساتھ کابل کے دورے پر جائے اور وہاں بچیوں کے تعلیمی پابندی پر ایک انقلابی تقریر کر آئے ذرا خوشبو لگاکے۔ یہ جمہوریت کی نعمت ہے کہ کوئی برطانیہ میں رہتے ہوئے اس نظام پر تنقید کرسکتا ہے۔
ایک افغان صحافی جو کینیڈا میں بڑا چہچہاتا تھا لیکن کابل جاکر مکملُ خاموش ہوگیا جب کسی نے پوچھا تو کہنے لگا
“ خدا معاف کرتا ہے لیکن ہیبت اللہ نہیں “
جب آپ کو کابل میں ہیبت اللہ اور تہران میں آیت اللہ پر تنقید کی اجازت مل گئی اسی روز میں آپ کے اسلامی نظام کو مغربی جمہوریت سے بہتر مان لوں گا ۔
ٹرمپ نے ابھی صرف ہماری طرز والی دس فیصد کمینگی دکھائی ہے تو دنیا بھر کی چیخیں نکل رہی ہیں ۔
لانسٹ جنرل پراجیکٹ نے اپنے ایک تازہ اسٹڈی میں بتایا ہے کہ اگر امریکی ایڈ کی امداد بند ہوگی تو غریب ممالک میں ایک کروڑ چالیس لوگ مرسکتے ہیں ، لیکن جب تک ٹرمپ نے یہ امداد بند کرنے کا اعلان نہیں کیا تھا تو دنیا اس حقیقت سے بے خبر تھی کہ ایک کروڑ چالیس لاکھ لوگ امریکی امداد پر جی رہے تھے۔
مغرب کے جمہوری ممالک میں رہ کر انکے نظام پرٗ تنقید آپ کا جمہوری حق ہے جو آپ کو انہوں نے خود دیا ہے لیکن انہی جمہوریتوں کے مزے لوٹ کر آمیریتوں کو اپنا آئیڈیل بنانے والوں کا اپنا ہی لیول ہے ۔
واپس کریں