طاہر سواتی
سب سے پہلے یہ جان لیں کہ تجزیہ اور خواہش میں فرق ہوتا ہے۔ اگر میں حقائق کی بنیاد پر تجزیہ کرتا ہوں کہ فلاں کو برتری حاصل ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں اُس کا حامی ہوں۔اسی طرح یہ لازم نہیں کہ میری پسندیدہ قوت کو کامیابی ملے۔
کل فاکس نیوز کو اسرائیلی وزیر اعظم بینامن نیتن یاہو نے کہا تھا کہ ’میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ہم نے ان کے چیف انٹیلی جنس افسر اور ان کے نائب کو تہران میں نشانہ بنایا ہے ۔‘اور کچھ دیر بعد پاسداران انقلاب سے منسلک خبر رساں ادارے تسنیم اور ایران کے سرکاری ٹی وی نے خبر دی کہ اتوار کے روز اسرائیلی حملوں میں پاسدارانِ انقلاب اسلامی کے انٹیلی جنس یونٹ کے سربراہ محمد کاظمی، ان کے نائب حسن محقق اور کمانڈر محسن باقری بھی ہلاک ہو گئے ہیں۔
اب یا تو آپ کہیں کہ اس طرح کوئی واقعہ ہوا نہیں ، یا یہ دلیل دیں کہ یہ کوئی اتنا بڑا نقصان نہیں ۔
جب میں کہتا ہوں کہ امریکہ کی اس جنگ میں شمولیت ایران کے لئے بڑی تباہی ہوگی تو اس کا مطلب یہ نہیں میری ھمدردیاں فریق مخالف کے ساتھ ہیں۔
اسرائیل اس جنگ میں امریکہ کی براہ شمولیت کا کتنا خواشمند ہے آپ حالیہ دو واقعات سے اندازہ لگا لیں،
سی این این کے صحافی بارک روڈ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی سیکیورٹی ذرائع نے انہیں بتایا کہ اس ویک اینڈ پر اسرائیلی سیکیورٹی فورسسز نے ایران کے سپریم لیڈر کو نشانہ بنانے کی پلاننگ کی تھی لیکن صدر ٹرمپ نے مداخلت کرکے اس منصوبے کو رکوا دیا ،
رائٹر کے مطابق دو امریکی انٹیلی جنس اہلکاروُں نے انکشاف کیا ہے کہ صدر ٹرمپ نے ایرانی سپریم لیڈر کے قتل کے منصوبے کو ویٹو کردیا تھا۔
بی بی سی کے مطابق کم از کم تین امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو قتل کرنے کے حالیہ اسرائیلی منصوبے کو مسترد کیا تھا۔امریکہ میں بی بی سی کے پارٹنر سی بی سی کو ایک عہدیدار نے بتایا کہ ’اسرائیلیوں کو خامنہ ای کو قتل کرنے کا موقع ملا تھا تاہم ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو سے کہا کہ یہ ایک ’اچھا خیال‘ نہیں۔ ‘
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم نے امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے ایران نے دو بار صدر ٹرمپ کو مارنے کا منصوبہ بنایا لیکن ہم بنے بروقت اطلاع دیکر اسے ناکام بنادیا ۔
اب یہ بات خارج از امکان نہیں کہ امریکہ کو اس جنگ میں گھسیٹنے کے لئے اسرائیل خود اس قسم کی کاروائی کرکے الزام ایران پر لگا دے ۔
آخر اسرائیل کو امریکی شمولیت کی اتنی اشد ضروت کیوں ہے؟
اسرائیل کو حالیہ لڑائی میں جو سب سے بڑی مشکل پیش آرہی ہے وہ ایران کے کچھ زیر زمین ایٹمی تنصیبات ہیں جو 80 ہزار میٹر کی گہرائی میں بنائے گئے ہیں ۔
اتنی گہرائی تک تباہی پھیلانے کے لئے کم ازکم ہزار 30 ہزار پاؤنڈ کے وزنی بم درکار ہیں، اسرائیل کے پاس نہ اتنے بڑے بمُ ہیں اور نہ اتنی دور تک لیجانے والے طیارے ۔ اس وقت اسرائیل کے پاس صرف چھ میٹر گہرائی تک نقصان پہنچانے والے میزائل یا بم موجود ہیں ۔
صرف امریکہ کے پاس اتنے وزنیُ بم اور اس کو طویل فاصلے تک لیجانے کی صلاحیت موجود ہے۔
امریکہ کے پاس تیس ہزار پاؤنڈ وزنی بم GBU-57A/B موجود ہیںُ جو 80 میٹر کی گہرائی تک زیر زمین کنکریٹ کے بنکر کو تباہ کرسکتے ہیں ۔
اور ایسے وزنی بم کو طویل فاصلے تک لیجانے والے B-52 بمبار جہاز بھی صرف امریکہ ہی کے پاس ہیں ۔
یہ بمبار جہاز 70 ہزار پاونڈ تک وزنی بم بغیر کسی ریفیولنگ کے 14 ہزار کلومیٹر تک لےجاسکتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اسرائیلٗ اور ایران کے درمیان یہ بغیر ایندھن ڈھلوائے کم ازکم چھ چکر لگا سکتا ہے۔
ایٹمی ہتھیار لیکر جانے والے یہ بمبار صرف امریکین ائرفورس کے زیر استعمال ہیں ۔
اس دیوہیکل جہاز کے بارے چند باتیں اور جان لیں کہ ۵۰ ہزار فٹ کی بلندی تک پرواز کرسکتا ہے اور عام فائٹر جہاز اتنی بلندی تک اسے چیلنج نہیں کرسکتا ۔
اس جہاز کی پیداوار 1952 میں شروع ہوئی تھی اور یہ 2050 تک قابل استعمال رہیگا ۔اس وقت امریکن ائرفورس کے پاس 76 بی باون ہیں ۔
قصہ مختصر اسرائیل کی سب سے بڑی خواہش ایران کی جس ایٹمی صلاحیت کو تباہ کرنا ہے وہ امریکہ کے براہ راست مداخلت کے بغیر انتہائی مشکل ہے ۔
بعید قیاس نہیں کہ ایرانی مولوی اسرائیل کی یہ دیرینہ خواہش پوری کردیں ۔
واپس کریں