اظہر سید
یہ شاندار صحافی ملنگ ٹائپ آدمی تھا ۔نڈر ،بے خوف اور اپنے پیشے سے مخلص ۔ یہ میرا دوست ہے ۔جنرل باجوہ کے دور میں جو دشمن قوتوں کو شکست دے کر ایک نوسر باز اس بدقسمت ریاست پر مسلط کیا گیا اس کے خلاف مسلسل آواز اٹھانے والی چند آوازوں میں مطیع اللہ کی آواز بھی شامل تھی ۔اس وقت کے جنرلوں ،ججوں اور نوسر باز کے خلاف بغاوت کرنے والوں میں ہم بھی شامل تھے ۔ پروفیشنل کیریر ہمارا بھی ختم ہوا اور مطیع اللہ جان کا بھی ۔اس نے یو ٹیوب کا مائیک اٹھا کر کام جاری رکھا اور ہم سوشل میڈیا پر متحرک ہو گئے ۔نیشنل پریس کلب کے الیکشن میں ہم نے مطیع اللہ جان کی سربراہی میں صدر کا الیکشن بھی لڑا ظاہر ہے ہارنا تھا ہار گئے ۔
ہم آج بھی اس جگہ پر کھڑے ہیں جہاں پہلے کھڑے تھے ۔مطیع اللہ کو ہم کبھی بھی بدنیت نہیں کہیں گے نہ سمجھیں گے لیکن سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف جب مہم جوئی شروع ہوئی مطیع اللہ جان نے الگ راستے کا انتخاب کر لیا ۔
فوج پاکستان کی ہے اور ہم پاکستانی ہیں ۔تنقید جنرلوں کی پالیسیوں پر ہونا چاہئے ادارے پر نہیں ۔
تنقید ججوں کے غلط فیصلوں اور بدنیتی پر ہونا چاہئے ذاتیات پر نہیں ۔سپریم کورٹ بھی ٹھیک ہو جائے گی ۔فوج بھی ٹھیک ہو جائے گی اداروں میں اصلاحات تدریجی عمل ہوتا ہے ۔مسلسل بغاوت کا پرچم لہرانا صحافت نہیں ذاتی بغض ہوتا ہے ۔
فائز عیسیٰ کے خلاف چلائی جانے والی گندی مہم کے پیچھے کون تھا مطیع اللہ جان بہت اچھی طرح جانتا تھا اس آگاہی کے باوجود قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف لندن کے جمائیا سمتھ کے پاؤنڈز لینے والے لونڈوں کی طرح قاضی فائز عیسیٰ کے پیچھے بھاگنا ہر گز صحافت نہیں تھی ۔
سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے ایک شخص نے اپنی لینڈ کروزر رینجرز اہلکاروں پر چڑھا دی ۔وہ شخص گرفتار ہو چکا ہے ۔گاڑی پولیس کی تحویل میں ہے اور مارگلہ پولیس اسٹیشن دیکھی جا سکتی ہے ۔مطیع اللہ جان نے ایک شخص کا انٹرویو کیا بقول جس کے وہ ایک شہید رینجر کا بھائی ہے اور رینجرز اہلکار خود رینجرز کی گاڑی کی ٹکر سے شہید ہوئے۔
اس انٹرویو نے سارا معاملہ مشکوک کر دیا ۔ویڈیو بہت کم لوگوں نے دیکھی لیکن مطیع اللہ جان کا انٹرویو وائرل ہو گیا ۔
دو پولیس اہلکار ہجوم کے تشدد سے شہید ہوئے ۔تین رینجرز اہلکار گاڑی تلے کچل کر مار دئے گئے ۔ایک ایف سی جوان اور ایک رینجر اہلکار اس وقت بھی آئی سی یو میں ہے ۔پچاس سے زیادہ پولیس اہلکار ہجوم میں مسلح افراد کی فائرنگ سے زخمی ہوئے ۔سو سے زیادہ پولیس اہلکار پتھراؤ سے زخمی ہوئے لیکن ساری توجہ اس انٹرویو پر چلے گئی رینجرز اہلکاروں کو خود رینجرز کی گاڑی نے ہلاک کیا ۔
صحافت ریاست اور عوام کیلئے ہوتی ہے واہ واہ کرانے اور ویوز کیلئے نہیں ہوتی ۔عمران ریاض اور صدیق جان اور نسل کے تھے مطیع اللہ جان الگ نسل سے تعلق رکھتا تھا ۔پیسوں کیلئے قلم فروشی مطیع اللہ جان ایسے سرفروشوں کا میدان تھا ہی نہیں ۔قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف میدان گرم کرنا تھا ،تحریک انصاف کی صفوں میں جانا تھا ۔اعجاز الاحسن ،منیب اختر،مظاہر ٹرکاں والا ،اطہر من اللہ اور منصور علی شاہ کی اقتدا میں سجدہ سہو کرنا تھا تو پہلے کر لیتے اس وقت علم بغاوت بلند کر کے باغیوں کی صفوں میں کیوں کھڑے ہوئے اور اپنا نقصان کیا عمران ریاض کی طرح صحافت چھوڑ دیتے ترجمانی سنبھال لیتے ساحل پر آکر کیوں ڈوبے ۔
ہم سمجھتے ہیں مہذب ریاست بنانے کیلئے صرف عدلیہ نہیں میڈیا کو بھی لگام ڈالنا چاہئے ۔جھوٹ ،دھوکہ اور فراڈ نے آج پاکستان کی سلامتی پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے ۔ہزاروں پاکستانی بھیک مانگنے کیلئے بیرون ملک جانا شروع ہو چکے ہیں ۔ہزاروں لاکھوں نوجوان یہ ملک چھوڑ رہے ہیں کوئی ڈنکی لگا کر گہرے پانیوں میں مر جاتا ہے ۔کوئی ویزے لے کر اس ملک سے بھاگ رہا ہے ۔اعلی تعلیم یافتہ نوجوان بائکیا چلا رہے ہیں ۔فوڈ پانڈہ والے بن گئے ہیں۔ معمولی تنخواہوں پر ملازمتیں کرنے پر مجبور ہیں ۔کوئی چوری ڈکیتی کی تاریک راہوں کے مسافر بن گئے ہیں ۔
اس ملک کو درست کرنا ہے اور نئی نسل کو بہتر پاکستان دینا ہے تو سب کو اپنے کام سے انصاف کرنا ہو گا ۔بھلے مطیع اللہ جان ہو یا کوئی اور ۔
ہم سمجھتے ہیں صرف مطیع اللہ جان کی گرفتاری سے معاملات درست نہیں ہونگے آپریشن کلین اپ کراس دی بورڈ ہونا چاہئے تاکہ فیک نیوز سے عوام کو گمراہ کرنے والا کھیل ختم ہو سکے ۔
واپس کریں