جنرل ضیاء الحق کا طیارہ حادثہ: سی آئی اے کی ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات۔ اکمل سومرو لاہور

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پانچ جولائی 1977ء ایک ایسا سیاہ دن ہے جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ اسی دن ایک فوجی آمر نے جمہوری نظام کو لپیٹ کر منتخب وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سے ہٹا دیا، اور بعد ازاں انہیں تختۂ دار پر چڑھا دیا گیا۔ جنرل ضیاء الحق کے گیارہ سالہ دورِ آمریت نے پاکستان کی سیاست، معیشت اور معاشرت پر ایسے گہرے منفی اثرات ڈالے جن کی بازگشت آج تک قومی زندگی میں سنائی دیتی ہے۔
ضیاء الحق کے اقتدار تک پہنچنے کی کہانی بھی بڑی پیچیدہ اور معنی خیز ہے۔ ستمبر 1970ء میں اردن میں ہونے والے فوجی آپریشن بلیک ستمبر کی کمان پاکستان کے بریگیڈیئر محمد ضیاء الحق کے سپرد کی گئی۔ آپریشن کی کامیابی کے بعد ان کے اردن کے بادشاہ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم ہوئے۔ انہی تعلقات کے نتیجے میں بادشاہ نے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو سے سفارش کی کہ ضیاء الحق کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی جائے، اور بھٹو نے اس سفارش کو قبول کر لیا۔ محض پانچ برس بعد، فروری 1976ء میں، بھٹو نے کئی سینئر جرنیلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے ضیاء الحق کو براہِ راست آرمی چیف کے عہدے پر فائز کر دیا۔ یہی وہ فیصلہ تھا جس نے پاکستانی سیاست کا رخ ہمیشہ کے لیے بدل ڈالا، اور ایک سال بعد بھٹو حکومت کے خاتمے پر منتج ہوا۔
یہ سیاسی موڑ دراصل سرد جنگ کے وسیع تناظر سے بھی جڑا تھا۔ امریکہ اور اس کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد میں استعمال کرنے کے منصوبے بنا چکے تھے۔ بروس رائیڈل جیسے سابق سی آئی اے افسران اپنی تحریروں میں اعتراف کرتے ہیں کہ چار جولائی 1977ء کو جنرل ضیاء الحق امریکی سفارتخانے میں اعلیٰ سطحی اجلاس میں شریک تھے، اور محض بارہ گھنٹے بعد پاکستان میں مارشل لا نافذ کر دیا گیا۔ اس آپریشن کو کوڈ نیم فیئر پلے دیا گیا تھا، جس کے تحت ایک جمہوری حکومت کا تختہ الٹا گیا۔
مارشل لا کے بعد پاکستان کو افغان جہاد کا مرکز بنا دیا گیا۔ سعودی عرب اور امریکہ دونوں نے مجاہدین کی فنڈنگ اور تربیت کے لیے پاکستان کو خطیر رقوم فراہم کیں۔ سعودی عرب کی جانب سے ہر ماہ پچیس لاکھ ڈالر اور بعد ازاں امریکہ کی جانب سے سالانہ پچاس ملین ڈالر پاکستان کو دیے گئے۔ ان رقوم کے نتیجے میں ملک میں مدارس کا جال پھیلایا گیا۔ 1971ء میں مدارس کی تعداد محض 900 تھی، لیکن 1988ء تک یہ بڑھ کر آٹھ ہزار سے تجاوز کر گئی، جبکہ غیر رجسٹرڈ مدارس کی تعداد پچیس ہزار سے زیادہ ہو گئی۔ ضیاء الحق حکومت نے ان مدارس کی ڈگریوں کو یونیورسٹی کی ڈگریوں کے مساوی قرار دے کر اس نظام کو باقاعدہ ریاستی سرپرستی فراہم کی۔
یہ سب کچھ افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکی منصوبے کا حصہ تھا، جس میں پاکستان فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر استعمال ہوا۔ ضیاء الحق کے قریبی ساتھی اور آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل اختر عبدالرحمٰن کو خصوصی طور پر سعودی عرب بھیجا گیا تاکہ جہاد کے لیے مالی اور عسکری تعاون کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے فوراً بعد سی آئی اے کو بھی اس منصوبے میں شامل کر لیا گیا، اور یوں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔
سی آئی اے کے declassified دستاویزات میں یہاں تک انکشاف کیا گیا ہے کہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کو زندہ رہنے دیا جاتا تو فوج کے اندر ضیاء الحق کے خلاف بغاوت کا خطرہ تھا، اس لیے ان کی پھانسی کو ناگزیر سمجھا گیا۔ بعد کے اعترافات سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ افغان جہاد دراصل امریکہ کی جنگ تھی جو پاکستان کی سرزمین اور ضیاء الحق کے اقتدار کے ذریعے لڑی گئی۔
فروری 1981ء میں سی آئی اے کی جانب سے ایک اور خفیہ مراسلہ جاری کیا گیا جس میں جنرل ضیاء الحق کی پالیسیوں کی کھل کر تائید کی گئی۔ اس دستاویز میں اس امر کی تفصیل موجود تھی کہ ضیاء الحق کس طرح پاکستان کے سیاسی ڈھانچے پر گرفت مضبوط کر رہے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف وفاق بلکہ مقامی سطح تک اپنا اثر و رسوخ قائم کر لیا تھا۔ مختلف صوبوں میں تاجروں کو اپنے ساتھ شامل کیا، جبکہ مذہبی رہنماؤں اور مختلف مکاتبِ فکر کے علما کو بھی ریاستی سرپرستی اور مالی معاونت کے ذریعے اپنا حمایتی بنایا۔ ان کو مدارس کے قیام کے لیے خطیر رقوم فراہم کی گئیں اور ہر سطح پر سہولیات مہیا کی گئیں۔ اس حکمتِ عملی نے ضیاء الحق کو داخلی سطح پر ایک مضبوط سیاسی و سماجی سہارا دیا، اور انہی بنیادوں پر وہ امریکی پالیسیوں کو خطے میں نافذ کرنے کے لیے ایک مؤثر کردار ادا کرتے رہے۔
مزید برآں، مئی 1983ء میں سی آئی اے کا ایک اور میمو منظرِ عام پر آیا، جس میں پاکستان میں جاری تحریکِ بحالیِ جمہوریت (MRD) کے بارے میں تجزیہ کیا گیا۔ یہ تحریک آٹھ سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل تھی، لیکن مراسلے میں اسے کمزور اور غیر مؤثر قرار دیا گیا۔ سی آئی اے کے مطابق جب تک ضیاء حکومت کو بیرونی پشت پناہی اور داخلی سطح پر مذکورہ مفادات حاصل ہیں، اس وقت تک جمہوری تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔
اسی نوعیت کے درجنوں مراسلے وقتاً فوقتاً سی آئی اے کی جانب سے تیار کیے گئے، جنہیں بالآخر 2017ء میں امریکی حکومت کے حکم پر declassify کر کے جاری کیا گیا۔ یہ دستاویزات اس امر کی واضح شہادت فراہم کرتی ہیں کہ ضیاء الحق کا اقتدار نہ صرف داخلی سماجی ڈھانچوں بلکہ بین الاقوامی طاقتوں کے براہِ راست تعاون سے بھی جڑا ہوا تھا۔
جب امریکہ نے سوویت یونین کو کمزور کرنے کا بنیادی مقصد حاصل کر لیا اور سرد جنگ کے اس محاذ پر اپنی کامیابی یقینی بنا لی، تو اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کو منظر سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس مقصد کے تحت عملی منصوبہ بندی کی گئی، جس کے شواہد بعد ازاں سی آئی اے کی بعض دستاویزات اور امریکی اخبارات میں سامنے آئے۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں "جہاد"، "فنڈیمنٹلزم" اور "اسلامائزیشن" کو ایک خاص تناظر میں فروغ دیا گیا، جس کا بنیادی مقصد امریکی مفادات کا تحفظ تھا۔ یہ پالیسیاں دراصل اس خطے میں سرد جنگ کے تناظر میں امریکہ کی اسٹریٹیجک ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے نافذ کی گئیں۔
اس کے بعد 1999ء کے بعد ایک اور فوجی جنرل کے زیرِ قیادت "روشن خیالی" کے عنوان سے نئے نظریات اور تصورات کو رواج دیا گیا۔ بظاہر یہ اصلاحات اور جدیدیت کے اقدامات تھے، لیکن درحقیقت ان کا ہدف بھی وہی تھا کہ امریکی اور مغربی طاقتوں کے مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ اس طرح پاکستان نے دونوں ادوار میں عالمی طاقتوں کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ایک آلہ کار کا کردار ادا کیا، جس کے منفی اثرات آج بھی ہمارے سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچے پر نمایاں ہیں۔
ان پالیسیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان سیاسی طور پر کمزور ہوگیا، اندرونی طور پر ہم شدید انتشار کا شکار ہیں، سیاسی عدم استحکام نے جڑ پکڑ لی ہے اور اقتصادی بدحالی ملک کی بنیادوں کو دن بہ دن کھوکھلا کرتی جارہی ہے۔
موجودہ دور میں نوجوانوں کے لئے یہ سمجھنا ناگزیر ہے کہ پاکستان کے سیاسی نظام کو بیرونی طاقتیں، بالخصوص عالمی استعمار، کس طرح کنٹرول کرتا ہے اور اس کنٹرول کے بعد ہمارے ہاں کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔ جب تک ہمیں اس حقیقت کا شعور نہیں ہوگا، اُس وقت تک ہم حقیقی معنوں میں ایک عوامی نمائندہ اور جمہوری حکومت کا انتخاب نہیں کرسکیں گے۔
اگست 1988ء میں واشنگٹن پوسٹ میں یکے بعد دیگرے تین مضامین (22، 28 اور 29 اگست کو) شائع ہوئے، جن میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ بہاولپور کے قریب جنرل ضیاء الحق کا طیارہ حادثہ کسی فنی خرابی یا محض ایک "آم کی پیٹی" میں بم رکھنے کے نتیجے میں پیش نہیں آیا۔ ان مضامین اور متعلقہ خفیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان اور امریکہ کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اس واقعے کا جائزہ لیا۔ پاکستان ایئرفورس کی ابتدائی رپورٹ میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا کہ طیارے پر ایک زمین سے داغا گیا میزائل لگا، جو سیدھا انجن پر جا کر ٹکرایا۔ اس کے نتیجے میں طیارہ زمین پر آ گرا۔ تحقیقاتی ٹیم نے دلیل دی کہ اگر جہاز کے اندر فضاء میں بم دھماکہ ہوا ہوتا تو ملبہ دور دور تک پھیل جاتا، لیکن میزائل حملے کے باعث ایسا نہیں ہوا اور زیادہ تر ملبہ ایک محدود علاقے میں گرا۔
یہ بریفنگ باضابطہ طور پر امریکی اہلکاروں کو بھی فراہم کی گئی تھی۔ مزید یہ کہ رپورٹ میں واضح طور پر درج تھا کہ طیارہ "گراؤنڈ لانچڈ میزائل" سے نشانہ بنایا گیا۔ تاہم یہ رپورٹ زیادہ عرصہ منظرِ عام پر نہ لائی گئی اور رفتہ رفتہ اس معاملے کو دبا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک جنرل ضیاء الحق کے طیارہ حادثے کی اصل حقیقت عوام کے سامنے پوری طرح نہیں آ سکی۔
1988ء میں ضیاء الحق کی اچانک موت کے نتیجے میں پاکستان میں سیاسی خلا پیدا ہوا، جس کے اثرات بعد ازاں آنے والی حکومتوں پر بھی مرتب ہوئے۔ مگر ایک دہائی کے اندر اندر، 1999ء میں، ملک کو ایک اور فوجی مداخلت اور نئے مارشل لا کا سامنا کرنا پڑا۔
اگر پاکستان کی تاریخ میں لگائے گئے چار بڑے مارشل لا کو یکجا کر کے دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عالمی طاقتیں جب بھی اس خطے سے کوئی بڑا اور منفرد کام لینا چاہتی ہیں، تو وہ براہِ راست یا بالواسطہ طور پر غیر جمہوری حکومتوں کو استعمال کرتی ہیں۔ ان غیر جمہوری ادوار میں دو ایسے غیر معمولی اقدامات بھی کرائے گئے جو پاکستان اور خطے کی سیاست پر طویل المدتی اثرات چھوڑ گئے۔
واپس کریں