دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
"افغان مہاجرین کی واپسی ۔۔ آخر کیوں نہیں ؟؟طاہر سواتی
No image پاکستان میں افغانیوں اور تالبان کے ہمدرد، جو زیادہ تر مذہبی جماعتوں اور نیازی کے پیروکاروں پر مشتمل ہیں، ایک طرف تو صبح شام طالبان حکومت کی ترقی کی مدح سرائی کرتے رہتے ہیں کہ وہاں امن و امان ہے، انصاف ہے، کرپشن بالکل نہیں ہے، معیشت مستحکم ہے، ڈالر سستا ہے اور پٹرول و بجلی پاکستان سے سستے داموں دستیاب ہے، وغیرہ وغیرہ۔
جبکہ دوسری جانب جب لاکھوں مہاجرین کی واپسی کی بات کی جاتی ہے تو یہ ہر فورم پر اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ جب وہاں اتنی خوشحالی ہے تو اس حساب سے مہاجرین کے ساتھ ساتھ ان کے ہمدردوں کو بھی وہاں آباد ہونا چاہیے تھا۔ سوویت جنگ کے بعد جب چھ سال تک امیر المومنین کی مثالی حکومت تھی، اس وقت یہ واپس نہیں گئے۔ اب تین برسوں سے ہیبت اللہ کی خلافت ہے، لیکن پاکستان کو دھمکیاں دینے اور 72 گھنٹوں میں اسے فتح کے دعوے کرنے والے غیرت مند، اپنے ایک بھی افغانی خاندان کو بخوشی واپس لینے کے لیے تیار نہیں۔
غیرت کا تقاضا تو یہ ہے کہ دشمن کے ساتھ لڑنے سے پہلے اس کے گھر میں پناہ گزین اپنے بھائیوں کو واپس لے جاؤ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہاں صرف تالبان کی وحشت کا راج ہے، کاروبار اور معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ ایک افغان صحافی کہہ رہا تھا کہ جب ہم مہاجرین سے کہتے ہیں کہ یہاں ذلت کی زندگی گزارنے سے بہتر ہے کہ اپنے ملک جاؤ اور باعزت زندگی گزارو، اب تو بالکل امن و امان ہے۔ تو جواب میں لوگ کہتے ہیں کہ صرف امن کا کیا کریں، اس سے پیٹ تو نہیں بھرتا۔
اگر میں اپنے علاقے کی بات کروں تو دیر میں چکدرہ، تیمرگرہ اور منڈا میں مہاجرین کے تین کیمپ ہیں۔ حالیہ جھڑپوں سے قبل 31 اگست 2024 کو انہیں آخری ڈیڈ لائن دی گئی تھی، لیکن کوئی واپس نہیں گیا۔ اب حالیہ کشیدگی کے بعد 15 اکتوبر کو وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کی صدارت میں کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں ان کی حتمی واپسی کا فیصلہ ہوا۔ اور اگلے دن انتظامیہ نے دیر کے تینوں کیمپوں کو ڈی نوٹیفائی کر کے ان کی پناہ گزین کیمپ کی حیثیت ختم کر دی۔
اس کے خلاف کل ایک مظاہرہ ہوا، جس میں جماعت کا ایک لیڈر "یوتھیا" بن کر خطاب کرتے ہوئے فرما رہا تھا کہ پنجاب اور سندھ جو مرضی کرتے رہیں، اس کا ہمیں پتہ ہے، لیکن خیبر پختونخواہ ان کی بے عزتی کی اجازت نہیں دے گا۔ اور جو بچے یہاں پیدا ہوئے ہیں، وہ پاکستان کے شہری ہیں، انہیں واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔ اس حساب سے تو ان کی 80 فیصد آبادی پاکستان کی شہری ہیں۔ جماعتی حضرت نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پاکستان اور امریکہ نے انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا، ان کی زندگیاں تباہ کیں، اب انہیں ذلیل کر کے واپس بھیجا جا رہا ہے۔
چالیس سال قبل جب ولی خان نے کہا کہ افغان عوام استعمال ہو رہے ہیں، یہ جہاد نہیں فساد اور روس امریکہ کی جنگ ہے، تو یہی جماعتی اسے کافر کہتے، گالیاں دیتے رہے۔ پاکستان میں امریکہ کی اس جہادی پالیسی کے سب سے بڑے علمبردار تو جماعت اسلامی تھی، بلکہ پاکستانی نوجوانوں کو وہاں جا کر ماروایا۔ میرا ایک قریبی رشتہ دار جو اسلامی جمعیت طلبہ میں تھا، وہ خوست کے محاذ پر مارا گیا۔ آج سب سے پہلے تو جماعت اسلامی کو قوم سے معافی مانگنی چاہیے کہ ہم خود بھی استعمال ہوئے اور دوسروں کو بھی استعمال کروایا۔
میں نے کل خیبر پختونخواہ کے ہر علاقے کی رپورٹ دیکھی، ہر جگہ انتظامیہ نے ان سے دو باتیں کیں:
پہلی بات کہ آپ کے ساتھ کوئی زبردستی یا زیادتی نہیں کی جائے گی، کوئی سرکاری اہلکار زیادتی کرے تو آپ ضلعی انتظامیہ میں فوری رپورٹ کر دیں۔
دوسری بات یہ کہ آپ کو بہر صورت واپس اپنے ملک جانا ہوگا، اس میں کوئی گنجائش نہیں۔
لیکن یہ ایسے احسان فراموش ہیں کہ کراچی میں ایک افغانی اپنے گھر کو جانے سے پہلے خود گرا رہا تھا، بقول اس کے پچاس لاکھ کا خرچہ آیا تھا، اب ہم گرا رہے ہیں تاکہ کوئی اسے مفت میں استعمال نہ کر سکے۔ پشاور اور مردان سے بھی اس قسم کی خبریں آرہی ہیں کہ یہ لوگ جانے سے پہلے باغیچہ، حتیٰ کہ اپنے اگائے ہوئے درختوں کو کاٹ رہے ہیں، تاکہ کوئی اس کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ بہر حال، یہ ان کی ذہنیت، ان کو مبارک۔
ادھر یہ تیسری جنگ بندی ہے جس کی افغان زومبیز خلاف ورزی کر کے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان بے ایمانوں کی ہر کوشش الٹی پڑ رہی ہے، کل گل بہادر گروپ کا تختہ الٹ دیا گیا ہے۔
واپس کریں