دل بعض و حسد سے رنجور نہ کر یہ نور خدا ہے اس سے بے نور نہ کر
فیصلہ کرنے کا وقت یہی ہے۔ دیر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔جمشید اقبال
No image گذشتہ روز سے سوشل میڈیا نوعمر بچوں کی ویڈیو دیکھنے کو مل رہی ہیں جن میں وہ اپنی جوانیاں تحریک پر وارنے کی قسمیں کھا رہے تو ہیں، گولی، کلاشنکوف اور لاشیں گرانے کی باتیں کررہے ہیں اور یہ سب دیکھ کر، سُن کر کوئی حیرت نہیں ہورہی کیونکہ یہ اُس زہریلے بیج کی تیار فصل ہے جو کئی دہائیاں پہلے بویا گیا تھا۔
نصاب، منبر اور میڈیا کے ذریعے یہ سکھایا گیا کہ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ اسلام کے دشمنوں سے لڑا جائے اور اگر ضرورت پڑے تو انہیں قتل کیا جائے۔
یہ بیانیہ شاید ابتدا میں فوج کو تقدس دینے اور عوام کو بیرونی خطرات کے خلاف متحرک کرنے کے لیے تراشا گیا تھا مگر ایسے خیالات ایک بار معاشرے میں سرایت کرجائیں تو کسی کے قابو میں نہیں رہتے بلکہ رگوں میں اُتر کر پروان چڑھتے ہیں اور پھر ایسی ہی غیر متوقع شکلوں میں سامنے آتے ہیں۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہی زبان اور وہی نعرے جو ہماری درستی کتب وغیرہ میں غیر مسلموں کے خلاف سُنے تھے اب متشدد گروہ ریاست کے خلاف بلند کر رہے ہیں۔ ان کے جلوس کہیں سے اپنے ملک میں کسی مسئلے کے خلاف احتجاج نہیں لگتے بلکہ یوں لگتا ہے جیسے صلیبی لشکر کسی "ک ا فر سرزمین" پر چڑھائی کے لیے نکلا ہو۔ ان کی زبان اور یہاں تک بدنی بولی سے نہیں لگتا کہ وہ اپنے ہی ملک میں احتجاج کے نام پر نکلے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی اپنے ہیں، لوگ بھی اپنے ہیں اور ملک بھی اپنا ہے۔
مسئلہ یہاں سے شروع ہوتا ہے کہ اعلیٰ ترین نیکی کو کس طرح مطلوب و مقصودِ مومن بناکر متعین اور ذہنوں میں راسخ کیا گیا۔ جب بچوں کو یہ پڑھایا جائے کہ سب سے بڑا اعزاز "ک فار" سے لڑنے میں ہے تو وہ ایک خطرناک منطق کو ہمیشہ کے لئے اپنے دل میں بٹھا سکتے ہیں۔ اگر باہر کوئی دشمن نہ ملے تو " ک ا فر" کی تعریف کو وسیع کر دیا جاتا ہے کیونکہ اعلیٰ ترین نیکی تو کمانی ہے اور اسے کمانے کے لئے ’’ ک فار‘‘ درکار ہیں۔ اگر ک فار ہمارے اردگرد موجود نہیں ہیں، تو پیدا کرو، اور نیکی کماؤ۔
یوں کبھی مخالف فرقہ، کبھی سیاسی حریف، اور کبھی خود ریاست ہی کو خدا کا دشمن قرار دے کر اس پر چڑھائی کردی جاتی ہے۔
شاید کسی نے سچ کہا تھا کہ ہم تاریخ سے نہیں سیکھتے۔ اگر سیکھتے تو قرونِ وسطیٰ کی مثال ہمارے سامنے ہوتی کہ یورپ میں کلیسا نے صلیبی جنگوں میں شرکت کو اعلیٰ ترین نیکی اور نجات کا اکلوتا راستہ بتایا مگر جب ایک بار جب مذہبی جنگ کا سلسلہ چل پڑا، صلیبی جنگیں ختم ہوگئیں یہ سلسلہ پھر بھی نہ رُک سکا اور اس نے اندر کا رخ کرلیا۔
’صلیبی جنگیں نہیں ہورہیں، تو ک فار سازی میں خود کفیل ہوجاؤ، اپنے اپنے ک فار خود بناؤ اور انہیں موت کے گھاٹ اتار کر اعلیٰ ترین نیکی کماؤ‘‘۔
نتیجہ یہ نکلا کہ کیتھولک پروٹسٹنٹ کو ذبح کرنے لگےاور پروٹسٹنٹ کیتھولک کو۔ یورپ صدیوں تک مذہبی مذبح خانہ بنا رہا۔ تیس سالہ جنگ (1618 سے 1648) نے پورے خطے کو اجاڑ کر شہرِ مدفون بنا دیا اور بالآخر یورپ کو مذہب اور سیاست کے تعلق پر نظرِ ثانی کرنا پڑی۔
لہٰذا، سبق بالکل واضح ہے۔ جب مذہب کے نام جنگ و جدل کو سب سے بڑی نیکی بنا دیا جائے تو تشدد کے سلاسل قابو میں نہیں رہتے۔ آگ کی طرح پھیلتے اور اسی معاشرے کو جلا ڈالتے ہیں جس نے انہیں ہوا دی تھی۔
پاکستان کی موجودہ صورتِ حال اس کی زندہ مثال ہے۔ ریاست نے کبھی اپنی فوج کو تقدس دینے کے لیے عسکری بیانیا تراشا مگر یہ وضاحت نہیں کی کہ اس بیانیے کے لئے استعمال ہونے والی منطق، عمل اور اقدام کے جملہ حقوق بحق ریاست محفوظ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب اس بیانیے کی نجکاری ہوچکی ہے۔ یہ بیانیہ مختلف گروہوں نے اپنا لیا ہے اور اسے ریاست کے خلاف استعمال کر رہے ہیں۔
زرا ان لوگوں کی زبان ملاحظہ فرمائیں۔ عین وہی زبان ہے جیسے کہ یہ گروہ رزمِ حق و باطل میں حق پر ہونے کی وجہ سے فولاد ہوں، خدا اور فرشتے ان کے ساتھ ہوں اور یہ پیغمبر اسلام سے اجازت نامہ حاصل کرچکے ہوں۔
یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ دہائیوں کی غلط اور خطرناک تربیت کا لازمی نتیجہ ہے۔ جب تشدد کو سب سے بڑی نیکی بنا دیا جائے تو کوئی اس سے نہیں بچ سکتا۔
وقت کم ہے اور خطرہ بہت بڑا۔ اگر ہم نے تشدد کو نیکی سمجھنا جاری رکھا تو خونریزی کا ہر نیا سلسلہ گذشتہ سلسلوں سے خطرناک ہوگا۔ یہ کوئی خواب نہیں بلکہ عملی ضرورت ہے۔ جس طرح یورپ نے اپنی مذہبی جنگوں کے بعد مذہب اور سیاست کے رشتے کو نئے سرے سے دیکھا اور سمجھا، پاکستان کو فوری طور پر اپنی فکری اصلاح کرنا ہوگی۔ ورنہ ہر گروہ تشدد کو مذہب کے نام پر جائز ٹھہراتا رہے گا اور یہ قوم اندر سے خود کو کھا جائے گی۔
المختصر، پاکستان ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہےجہاں یا تو ہم جنگ اور تشدد کو فضیلت مان کر اس کے شعلے اپنے خلاف اٹھتے دیکھتے رہیں، یا پھر اعلیٰ ترین نیکی کو علم، خدمت اور درمندی کے ساتھ جوڑ کر نئی راہ اختیار کریں۔
فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے لیکن فیصلہ کرنے کا وقت یہی ہے۔ دیر کرنے کی کوئی گنجائش نہیں۔
واپس کریں